04 ستمبر 2023

یوتھ مینٹل ہیلتھ

 

مختلف ادارے آسٹریلیا اور یورپ کے بعد امیریکہ میں بھی مینٹل ہیلتھ فرسٹ ایڈ کو ایک اہم ریسورس قرار دیتے ہیں۔ خصوصا جن اداروں کا تعلق براہ راست کمیونٹی ڈیویلپمنٹ یا ٹین ایجرز یا نوجوانوں سے بنتا ہے کسی نہ کسی طور ضرور اپنے کارندوں کو یہ تربیت دینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔کئی لوگ اسے فرسٹ ایڈ کا ایک حصہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اب نوعمر اور کمسن بچوں میں نفسیاتی مسائل کے رجحانات بہت تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ کے ڈیٹا کے تحت ہر پانچ میں ایک نوعمر یا نوجوان کسی نہ کسی دماغی صحت کے مسئلے کا شکار ہے۔ دماغی مسائل اور اوورڈوز ٹین ایجر اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

گرمیوں میں جس مسلم سمر کیمپ کے ساتھ میں کام کر رہی تھی انہوں نے یہ ٹرینینگ آفر کی تھی۔ تھیوری کے ساتھ اس میں متعلقہ فرضی مسائل عملی طور پر شامل کئے گئے تھے تاکہ مثالوں سے صورتحال کو کو اپرووچ کرنے، اس کی نوعیت اور سنجیدگی بھانپنے اور اس کے مناسبت سے اگلے اقدام کے بارے میں راہنمائی اور تربیت کی جائے۔ یوں تو اب تک ہم سب ہی دماغی صحت کے بڑھتے ہوئے چیلنجز اور انکی وجوہات سے کچھ حد تک واقف ہیں۔ میں نے بھی اپنی غلطیوں سے اور اِدھر اُدھر سے پڑھ کر اس بارے میں کچھ نہ کچھ سیکھا اور سمجھا ہے۔ میرا یہی خیال تھا کہ یہ ایک اور بیسک ٹرینینگ ہوگی جس میں کچھ نیا نہیں ہوگا۔

لیکن درحقیقت ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ ہمیں بچوں سے ان کی زبان میں بات کرنے اور ان کے خیالات کی رو کہاں جا رہی سمجھنے کے لیے اپنی معلومات کو اپڈیٹ کرتے رہنے کی ضرورت رہتی ہے۔بہت سے طریقے اور فقرے جو دس سال پہلے بالکل ٹھیک تھے وہ اب غلط سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ہم والدین، استاد، یوتھ گروپ آرگنائزر یا وولنٹیر کے طور پرکسی طرح بھی بچوں کی بہبود سے منسلک ہیں تو ہمارا ان نئی اصطلاحات اور تازہ تحقیقات کےساتھ چلنا ضروری ہے۔ 

ویسے تو میرا یہی خیال رہا ہے کہ بچوں کے لیے روٹین کی زندگی کسی بھی قسم کے نفسیاتی مسئلے کا شکار ہونا ناممکن سی بات ہے۔ اور یہی مفروضہ ہم سے پہلی بنیادی غلطی کراتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا اگر نہیں ہے تو خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ سو ہماری پہلی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم ابتدائی علامات کو دھیان سے سمجھ اور جانچ سکیں کیونکہ بروقت مداخلت سے ان مسائل کو خراب تر صورتحال میں بدلنے سے روکا جاسکتا ہے۔ بچوں سے بات کرتے ہوئے جو غلطیاں ہم اکثر کر جاتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔

۱۔ ہم اکثر بہت زیادہ مثبت انداز فکر دکھاتے ہیں کہ تم بالکل ٹھیک ہو۔ یہ صرف ایسے ہی لگ رہا ہے۔ ذرا ہنسو کھیلو، کھاؤ پیو۔ سب ٹھیک ہو جائے کا سب ٹھیک ہے۔ ہوسکتا ہے وہ ہمارا دل رکھنے کو مزید اس بارے میں بات نہ کرے۔ 

۲۔ کبھی ہم اس کے مسئلے کو ضرورت سے کم اہمیت دے کر باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے یہ کون سی ایسی بڑی بات ہے وغیرہ جس سے اسے لگتا ہے کہ آپ اُس کو سمجھ نہیں سکتے ۔ 

۳۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ بات سننے سے پہلے ہی ہم اس کی بات کاٹ دیں یا درمیان میں لقمے دیتے رہیں۔ یا ہلکا پھلکا مذاق اڑانے لگیں وغیرہ جس سے اس کی مزید بات کرنے کی دل چسپی ختم ہو جائے۔ 

۴۔ اور جب سمجھ آنے لگتی ہے تو ایکدم اوور پروٹیکٹو ہو جاتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ فکر پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔ جس سے وہ ہمارے سامنے مزید بات کرنے سے گھبرانے لگتا ہے اور ہمیں یہ تاثر دیتا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ 

۵۔ کبھی ہم بات کا رخ اپنی طرف موڑ لیتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ اسے کون سمجھ سکتا ہے ۔ میں نے بھی ایک عمر گزاری ہے۔ مجھے تم سے زیادہ پتہ ہے ۔ بچے کو اسکے مسئلے کے لیے جس یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں ملتی تو وہ کھل کر بات نہیں کرتا۔ 

۶۔ ہمارا سرپرستانہ رویہ بھی انہیں پسند نہیں آتا اس کا جو علاج مجھے سمجھ آیا ہے کہ ان کو کچھ دیر کے لیے بچے کہ بجائے اپنا ہم عمر تصور کر لیں تاکہ ایک ہی لیول پر گفتگو ممکن ہو سکے۔ لیکن اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ میں اس وقت ان سے اپنے مسائل شئیر کرنا شروع کردوں۔ اس ہم عمری کا استعمال صرف انکی بہبود کے لیے کرنا ہوتا ہے۔ 

۷۔ بچوں کے ساتھ ہمارا رویہ عموما سنی ان سنی والا ہوتا ہے اور ان کے تجربات اور خیالات سننا ہمیں دلچسپ ضرور لگتا ہے لیکن اہم نہیں ہوتا۔ ہمارا اصل مقصد انہیں بس اسباقِ زندگی ازبر کرانا ہوتا ہے۔ لیکن نہ سننے سے ہم ان کے دماغ میں چلنے والے بہت سے مسائل سے بروقت خبردار نہیں ہوپاتے اور ابتدائی علامات مس کر دیتے ہیں۔ 

۸۔ علامات نظر انداز کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم خود دماغی طور پر انہیں اویلیبل نہ ہوں۔ اگر ہم خود ہی بیمار و بیزار ہیں یا اپنی زندگی میں صحت مند رویے اختیار کرکے اپنا ہی خیال نہیں رکھ سکتے تو دوسروں کو بھی وہ دھیان اور خیال نہیں دے سکتے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ 

کبھی کبھی صرف ایک شخص کی خیال رکھنے والی ہمدردانہ موجودگی بچوں کی دیر پا بہبود کی ضامن ہوسکتی ہے۔ اگر وہ کسی بھی انداز میں اپنے رویوں یا لفظوں سے کوئی اندر کی بات بتا رہے ہیں تو اسے ہمدردی سے سننا اور قبول کرنا اور معمول سے ہٹ نظر آنے والی علامات کو دھیان میں رکھنا نہایت اہم ہے۔ پھر اگر مسئلے کی شدت زیادہ ہو نیم حکیم بالکل نہیں بننا چاہیے۔ ان کو مناسب طبی امداد فراہم کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں: