کبھی کبھی ہم اتنے خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم محسوس کرنے لگتے ہیں کیا اتنی خوشی ممکن بھی ہے؟ کیا اتنی خوشی جائز ہے؟ کیا اس سے زیادہ خوش ہونا ممکن ہے؟ کیا خوشی کی کوئی حد بھی ہے ؟ کیا یہ کچھ روز ہمارے ساتھ ٹہرے گی؟ کیا ہم اس کے حقدار ہیں بھی ہیں یا ہمارا کوئی تکہ لگ گیا ہے۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ صحیح۔ لیکن خوشی ایک جذباتی کیفیت ہی تو ہے اور بجا کہ اس کا کوئی پیمانہ نہیں ، اس کی حد بندی کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اپنی ہالف لائف سے آگے جانا اس کے لیے کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
پھر ہم سوچتے ہیں شائد اگر ہم خوشیوں کی ایک مسلسل لڑی بنا لیں تو ایسا کوئی لمحہ ممکن نہیں ہوگا جب ہم ناخوش ہوں۔ اور ہم ایک عظیم خوشی کی کیفیت میں تمام زندگی گزاریں سکیں گے۔ ہوسکتا ہے آپ نے بھی لاشعوری طور پر کبھی ایسے ہی سوچا ہو۔ یا لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ خوش رہنے کی دلی دعا بھی دی ہو لیکن یہاں یہ پڑھتے ہوئے آپ یقینا سوچنے پر مجبور ہوں یار یہ کیا فضولیات لکھی ہوئی ہے۔ مسلسل خوشیوں کی ایک لڑی؟ آر یو سیریس۔ ہاں مجھے بھی لکھتے ہوئے کچھ ایسا ہی لگ رہا کہ میں بچگانہ پن کے نیکسٹ لیول کو چھو رہی ہوں۔
کوئی بھی شخص جس نے کریم والے بسکٹ کا پورا پیک ایک سیٹنگ میں کھانے کی کوشش کی ہوئی ہے وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوگا کہ مسلسل میٹھا کھاتے کھاتے ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ زبان اس ذائقے کو محسوس کرنا چھوڑ دیتی ہے یا کبھی میٹھے کی بجائے ہمیں ایک کڑوا ذائقہ محسوس ہونے لگتا ہے اور یہی زندگی میں خوشیوں کا تسلسل کرتا ہے ہمیں ان کی خوبصورتی دِکھنی بند ہوجاتی ہے اور ہم ان کو اپنی زندگی کا ایک معمول سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیا ایسا ہی غموں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کیا ہم غم برداشت کرتے کرتے عادی ہوجاتے ہیں اور غم پیدا کرنے والے حالات کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیتے ہیں؟ کبھی احتجاج نہیں کرتے؟
ایک کوٹیشن نوٹس میں لکھی تھی ۔۔ کوئی اس لیے احتجاج کرتا ہے کیونکہ نہ احتجاج کرنا بے حد ذلت آمیز ہے۔ مار دیتا ہے ختم کردیتا ہے۔ کوئی احتجاج کرتا ہے (بیریکیڈ بنا کر، ہتھیار اٹھا کر ۔ بھوکا رہ کر ، ہاتھوں میں ہاتھ تھام کر، چیخ کر یا لکھ کر) لمحہ موجود کو بچانے کے لیے۔ احتجاج کسی کاز کے لیے ایک قربانی نہیں ہے یہ کسی مستقبل کے لیے نہیں ہے بلکہ حال کے لیے ہے۔ اس لمحہ موجود میں تھوڑی سی صحیح الدماغی بچانے کے لیے۔
بعض باتیں ہر دور میں ویلیڈ ہوتی ہیں لیکن میں نے تو شائد اس اقتباس کو اس خیال میں محفوظ کیا تھا کہ کوئی کیوں لکھتا ہے۔ کبھی کبھار کوئی اپنے اندر کچھ بچانے کے لیے لکھتا ہے۔ لازمی نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں جھانکنے کے لیے لکھے۔ لیکن وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے زندگی کی پہیلی کو مکمل کرنے کے لیے اشارے تلاش کرنے کے لیے لکھتا ہے۔ یہ پہیلی مکمل ہونے پر آپ کی ناپسندیدہ بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کی تکمیل ضروری ہے یہ میں عموما اپنے بچوں کو بتاتی ہوں، جب ان کے ہزاروں ٹکڑوں کے پزل زمین پر ڈھیر ہوتے ہیں کہ یہ میرے پیروں میں روکاوٹ بن رہے ہیں ۔ ان کا مکمل ہو کر یہاں سے اٹھنا ضروری ہے تاکہ ہم زندگی کی دوسری چیزوں کو دیکھنا شروع کریں
دوسری چیزیں جیسے سوچنا کہ آخر ہم کیوں جئیں؟۔ زندگی کا مقصد صرف خوشیوں کا مسلسل تعاقب تو نہیں ہو سکتا۔ لیکن پھر بس غلطیاں کرنا، اپنے فیصلوں پر پچھتانا اور ادھورے خوابوں کو حسرتوں میں ڈھلتے دیکھنا یہ بھی زندگی کا مآل نہیں ہو سکتا۔ آخر ہمیں زندگی میں ہر شے کا احساس اتنی دیر سے کیوں ہوتا ہے ؟۔ ہمیں جاننے کے مناسب اوزار کیوں نہیں دیے گئے۔ ابتدائی جماعتوں میں ہمیں دور دراز کی زمینوں کے نقشے کیوں نہیں پڑھائے جاتے ۔ ہم اپنے نصاب کے پریکٹیکل کے وقت میں دوسری کہکشاؤں کا سفر کیوں نہیں کرتے۔۔ ہائی اسکول میں ہم دنیا کے امن کو اپنا ہوم ورک کیوں نہیں بنا سکتے،؟ اچھے کارڈیو اور سانس ایکسر سائز کو ہم کنڈرگارٹن کے نصاب میں کیوں شامل نہیں کرتے؟ ہم خوشی کے تعاقب کی لاحاصل جستجو کا سچ ۔ میری ہیز اے لٹل لیمب اور دوسری نرسری کی نظموں کے ساتھ ہی کیوں نہیں سکھا دیتے؟
زندگی کے اختتامیہ کے اس جادوئی وقت میں ہی آکر ہم کیوں اپنے رنگدار چشمے اتارتے ہیں۔ اور پھر حقیقت کے رنگ غیر حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ اتنے لمبے عرصے میں بھی ہم رولر کوسٹر کے نیچے جانے کی رو کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ناک کی سیدھ میں نیچے جانے کا یہ گر۔۔ دل کے دھڑکنے کا یہ گھمبیر طریقہ جو صرف رولر کوسٹرز ہمیں سکھاتی ہیں۔کمزور دل افراد کے لیے نہیں ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ہماری جستجوئیں اکثر شعبہ کارڈیالوجی ہی میں ختم ہوتی ہیں۔ دل کے معاملات آج بھی دنیا بھر میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ کاش ہم سمجھ سکتے کے خوشیوں کے تعاقب کو ایک اچھے کارڈیو روٹین کے ساتھ کمبائن کرنا کتنا سود مند ہوسکتا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں