ویسے تو خوشیوں کے تعاقب کا فلسفہ نوعِ انسانی کے لیے نیانہیں ہے۔ ھیڈونزم کا اخلاقی مفروضہ کہتا ہے کہ انسانی زندگی کا اصل مقصد کامل خوشی کا حصول ہے، خواہشات کی بے تکان تکمیل، لذت پرستی۔ نراوان کی خواہش ۔ زندگی کا مزہ صرف میٹھے میں دیکھنا۔ ہر قسم کی منشیات ۔ اسی مفروضے کی اشکال ہیں۔ اور انسان مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے مصروف بھی رہا ہے۔۔
لیکن مجموعی طور پر معاشرے میں اس سے پہلے خوشی ہمارے اعمال کا ایک سائڈ پروڈکٹ ہی سمجھا جاتا تھا۔ زندگی میں لمحاتی خوشی کی بجائے دیرپا اطمینان کی اہمیت زیادہ تھی۔ مختلف مذاہب کسی نہ کسی طور درد کو نجات سے منسلک رکھتے تھے۔ اسی لیے خوشی کے تعاقب کو سائیڈ افیکٹ کی بجائے اصل مقصد زندگی بنا دینے اور نظریاتی طور قومیانے سے انسانی آئیڈیلز میں ایک انقلابی انحطاط پیدا ہونا ضروری تھا۔
ھیڈونزم کا متضاد ایسی جذباتی صورتحال ہے جس میں انسان کسی بھی کام یا شے سے لذت کشید کرنے کی صلاحیت کے فقدان کا شکار ہوتا ہے۔ وہ خوشی کی پہچان کرنے یا اسے کوئی مفہوم یا ذائقہ دینے سے بالکل قاصر ہوتا یا ہو جاتا ہے اسے طبی زبان میں انھیڈونیا کہتے ہیں۔ لیکن وہ تو ایک بیماری ہے عام لوگوں سے اس کا کیا تعلق ہے۔
معلوم نہیں کوئی تعلق ہے یا نہیں لیکن بظاہر جب تمام میگزین اپنے سرورق پر جلی حروف میں خوشی بیچنا شروع کردیں تو ہمیں لگتا ہے شائد اس کی قلت پیدا ہو چکی ہے کیا “زیادہ خوش رہیں” خوشی کی سائینس کو سمجھیں” “خوش رہنے کے دس طریقے” “خوشیوں بھری نئی زندگی آج ہی شروع کریں”۔ جیسے فقرے آپ کی نظر سے بھی عموما گزر چکے ہیں۔
ہمارا خوش رہنا اور ہماری خوشیوں کی مسلسل لڑی ہی ہماری موجودہ زندگی کا مرکزی خیال ہے اور اس سے آگے پیچھے ہونا کسی بھی طرح ہماری ناکامی سمجھا جاتا ہے۔ اکثر کوئی نہ کوئی رشتہ دار خاتوں کہتی نظر آئیں گی کہ کسی فلاں کی خوشیاں کم ہو گئی ہیں۔ بہت دلگیری سے وہ کہتی ہیں۔ بس کیا بتاؤں خوشیوں کو کس کی نظر کھا گئی ہے۔ پھر ہمیں مزید متاثر کرنے کے لیے کہتی ہیں یہ حدیث سے بھی ثابت ہے اور پھر نظر سے بچنے کی دعا پڑھتی ہیں۔
ہم شدید متاثر ہوجاتے ہیں۔ اصل میں ہمیں دوسری حدیث زیادہ نہیں پڑھائی جاتی کہ جب اللہ کسی سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو دنیا اس پر تنگ کر دیتا ہے۔ یا مشکل اور آسانی ساتھ ساتھ چلتی ہے اور کیونکہ غم ہم پر بوجھ ہوتا اور دل میں تنگی آتی ہے۔ تو سینے کی کشادگی کی دعا بھی یاد کرلینی چاہیے۔ ہم بس دل میں سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ فلاں کی مزید خوشیوں کی دعا کریں یا یہ تھوڑا سا غم بھی ٹھیک ہی رہے گا؟
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں