ہوتا ہے شب روز تماشا میرے آگے
امکان کی بارگاہ میں بے ترتیب ہنگام کا بے توازن رقصخود شناسائی کی بے کار لے پر ڈولتےبے مقصد موھوم امیدوں کے پیرعدم کے صحن میںمستحکم تضادات اور دکھ دیتی ادھورگی تکمیل کی داستان بننے کافطرت کا اپنا ہی طور ہے