لوگ کیا کہیں گے جاننے کا مجھے ہمیشہ سے شوق رہا ہے۔ اسی لیے جب بھی میں سنتی ہوں لوگ کیا کہیں گے تو میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ اس کی کچھ تفصیلات حاصل کرسکوں لیکن مجھے بال کی کھال اتارنے کا الزام دے کر اکثر لوگ چپ کرادیتے ہیں۔ ورنہ ایک سخت سی نظر مجھ پر ڈال کر کہتے ہیں کیسا احمقانہ سوال ہے۔ آپ کو خود نہیں معلوم کیا؟ مجھے معلوم تو نہیں لیکن میں لوگوں کی طرف سے کچھ نہ کچھ اچھا برا سوچ کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ اور یہی لوگوں کی باتوں کے خوف کا پہلا مسئلہ ہے۔
ہمارے سب سے پہلے تنقید نگار ہم ہی ہیں۔ اور اس تنقیدی جائزے میں ہم خود کو واقعاتی نظر سے دیکھنے کی بجائے اوروں کی نظر سے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسی حقیقت کے پہش نظر فیس بک نے فیڈ کو ویو ایز ۔ دوسروں کی نظر ۔ کے آپشن کا اجرأ کیا تھا۔ لیکن ہم خود کو ایسی تنقیدی نگاہوں سے کیوں دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ بلکہ ہم خود پر تنقید کرتے ہی کیوں ہیں۔ کیا ہم خود کو ایسے ہی برداشت نہیں کر سکتے ؟ آخر دوسروں سے بھی ہماری یہی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ میں جو ہوں وہ ہوں۔۔
ہوسکتا ہے وقت کے ساتھ ہمارے پیاروں کی سخت گیر تنقید نے اس کی بنا ڈالی ہو یا ہمارے استاد، کوچ اور دوسرے بڑے اس کے ذمہ دار ہوں جو ہمیں ایک خاص سانچے میں دیکھنا چاہتے تھے لیکن ہم ویسے نہیں تھے۔ یا نہیں بن سکے یا بننا ہی نہیں چایتے۔پھر وہ چاہے ساتھ نہ بھی ہوں ہم ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ہماری اپنی تنقید ان کی کہی باتوں سے بھی زیادہ تلخ ہوتی ہے۔ ہماری آواز ہمارے بدترین دشمن کی آواز بن جاتی ہے اور ہمارے کچھ بھی کرنے میں حارج ہو جاتی ہے۔ اور ہم حیران ہو کر سوچتے ہیں ہماری تو کسی سے دشمنی بھی نہیں ہے۔
یہ ہمارے دماغ کا وقت کے ساتھ سیکھا ہوا ہنر ہوتا جہاں وہ کہیں بھی باہر سے ہمیں جذباتی زخم کھانے سے بچانے کے لیے خود حفاظتی کے تحت خود پر ہی تنقید شروع کردیتا ہے۔ ہم چونکہ اپنے دماغوں پر بھروسہ کرتے ہیں تو اکثر بلاچون و چرا ان تمام باتوں کو قبول کرلیتے ہیں۔ ہم ہی تو اپنے آپ کو نااہل، نامکمل، نالائق اور کمزور بے چارا قرار دیتے رہتے ہیں۔ ہر تقریب کے بعد ہمارے پاس خود کو شرمندہ کرنے کے لیے اپنی حماقتوں اور غلطیوں کی لمبی فہرست ہوتی ہے جو ہم خود ہی معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
شائد ہمارے ذہن میں پرفیکشن کا ایک ناقابل حصول معیار موجود ہوتا ہے ہم ہمہ وقت اپنا ذہنی موازنہ اس سے کرتے رہتے ہیں ۔ پھر یا توخود کو اپنے معیار پر شکست یافتہ قرار دے کر مقابلے سے باہر کردیتے ہیں یا پھر ہمیشہ کے لیے اس اندھی دوڑ میں خود کو دوڑاتے رہتے ہیں۔ شکست بے وجہ اداسی اور غم و الم پر منتج ہوتی ہے اور اندھی دوڑ کی منزل نہ ختم ہونے والی بے چینی ہے۔ اب کے نوجوانوں کو جس آیڈیل پرفیکشن کا ناقابل حصول تصور سوشل میڈیا نے دیا ہے وہ ہی انکی بڑھتی ہوئی سوشل انگزائیٹی کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔
خود کا جائزہ لینا ایسی کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ لیکن میں خواتینی ڈائیجسٹوں والے : "نِکلتے نِکلتے اُس نے دیوار گیر آئینے میں اپنے عکس پر ایک تنقیدی نظر ڈالی، سرخ لباس نے اس کے حسن کو اور بھی نکھار دیا تھا۔" والے جائزے کی بات نہیں کر رہی۔ بلکہ ہمارے جذباتی رویوں، ہمارے خیالات ، احساسات توقعات یا ہم کسی صورتحال میں کیسے پیش ہوتے ہیں، اس صورتحال سے کیسے نمٹتے ہیں اس کا جائزہ لینا بلا شبہ بہت اہم ہے۔ ہماری خود سے توقعات واضح اور حقیقی ہوجاتی ہیں تو پھر ہماری تنقید بھی تخریبی کی بجائے تعمیر ی ہو جاتی ہے۔
میں سوچتی ہوں اگر ہم ویو ایز پر مالک کی نظر سیٹ کرلیں تو پرفیکشن کے کچھ پہلو کتنے غیر ضروری ہو جائیں گے۔ اپنے آپ کو بہتر دیکھنے اور بہتر بنانے کے معیار کتنے بدل جائیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں