کچھ سوشل میڈیا ایپ اپنے فوٹو فلٹر کے ساتھ آتی ہیں، لیکن زیادہ تر لوگ فون فوٹو ایپ ہی سے تصاویر کو فلٹر اور ایڈٹ کر لیتے ہیں۔ اگر بہت ہی زیادہ شوق ہو تو یورکیم یا فن کیم وغیرہ۔ اصل مقصد یہ ہوتا کہ تصویر سے غیر ضروری حصے نکال کر اس کو بہترین طریقے سے پیش کیا جائے تاکہ زیادہ پسندیدہ ہو۔ میں سوچتی ہوں گفتگو کا بھی ایک فلٹر ہونا چاہیے جو باتوں سے غیر ضروری فقرے حذف کردے اور صرف پسندیدہ حصے باقی رہ جائیں۔
لیکن فلٹر ہے تو سہی۔ ہم خود ہر گفتگو کے فلٹر ہیں۔ ہم لہجوں اور باتوں کو من پسند رنگ دیتے ہیں۔ ہم دوسروں کی باتوں کو اپنی مرضی کے مقام سے کاٹ دیتے ہیں۔ ہم نا پسندیدہ حصوں کو میوٹ کر دیتے ہیں اور کسی کو ہمارے سین میں زیادہ ابھرنے کا موقع نہیں دیتے۔ ہم خود بتاتے ہیں کہ جو بات ہم کہ یا سن رہے ہیں اس کو کس تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔ہمارے شعوری اور لاشعوری تعصبات بھی ہمارے فلٹر ہیں جو سچائی کو بگاڑنے اور حقائق کو مسخ کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ لیکن کیا سچائی کو ابھارنے اور حقیقت کو مثبت روشنی میں پیش کرنے کا بھی کوئی فلٹر ہے؟
دراصل یہ سب ہمارے نقطہ نظر پر منحصر ہے کہ ہم کس بات کو کس رنگ میں پیش یا قبول کرنا چاہتے ہیں۔ اصل میں لوگوں کی رائے اور خیالات جاننا ایک طرح سے ہماری سماجی ذہنی اور جذباتی ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کے تحت ہم مثبت منفی ہر قسم کی باتیں سننے کے خود کو تیار بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہماری رائے دوسروں پر تعمیری اور تخریبی دونوں قسم کے اثرات مرتب کرتی ہے ۔ اکثراوقات جب ہم اس رائے کو اپنے حالات یا شخصیت کے لحاظ سے خود ہی تعمیری یا تخریبی رول اسائن کر دیتے ہیں۔
تخریبی یا تنقید برائے تنقید اور تعمیری تنقید (اس کو ہم فیڈبیک کہ لیتے ہیں) میں واضح فرق ہوتا ہے۔ تنقید میں ہم غلطیوں کا قضیہ ماضی بعید سے شروع کرتے ہیں پھر مختلف کمزوریاں یا خامیوں پر فوکس کرکے اپنی بھرپور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے خود کو یا دوسروں کو تمام مسائل کی جڑ سمجھتے ہوئے دماغی میں بھرپور تخریب کاری سرانجام دیتے ہیں۔ اس کے برعکس فیڈ بیک میں ہمارا سارا فوکس ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کو سلجھانا کیسے ہے۔ ہم کمیوں کی بجائے موجود صلاحیت کے نکھار اور نئی صلاحیت کے حصول پر دھیان دیتے ہیں تاکہ ایک بہتر مستقبل کی طرف بڑھا جائے۔ تعمیری تنقید لوگوں کی حوصلہ شکنی کے لیے نہیں حوصلہ افرائی کے لیے استعمال ہوتی ہے اسی لیے اس میں تعمیر کی توانائی ہوتی ہے۔
کچھ دیر کے لیے ہم سوچ لیتے ہیں کہ تخریبی تنقید ایک غیر ضروری چیز ہے۔ لیکن تعممیری تنقید کے بغیر ہماری شخصی بہتری کا تصور شائد ادھورا ہی رہے گا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہر وقت کی تعریف ہمیں کبھی بھی اپنی کمیوں کو دور کرنا نہیں سکھا سکتی۔ پھر ہم خود سے جھوٹ بھی بول جاتے ہیں ۔ جیسے کہ سب ٹھیک ہے اورکسی بہتری کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔ پھر جیسے ہم کسی آئینے کے بغیر پوری طرح اپنے پیچھے نہیں دیکھ سکتے اسی طرح ہم اپنی شخصیت کے بلائینڈ سپاٹ کو بھی خود سے نہیں جانچ سکتے۔ لوگوں کی رائے ہمارا آئینہ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ہمیں اس میں اپنی شکل نہیں پسند آتی جس کے بارے میں آپ نے بہت سے شعر بھی سنے ہوں گے۔ اگر ابھی کوئ یاد آرہا ہے تو کمنٹ میں لکھیں۔
بہرحال دوسروں کے لفظوں میں اپنی شکل کو دیکھنا اور اس میں سے اپنی بہتری کی تجاویز چھاننا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے۔ یوں کہ ہم ہر رائے کو سنیں، اس کو اپنی ضرورت اور سیچوئیشن کے مطابق پوائینٹ نکالیں۔ اس بات کو قبول کریں کہ بات کہنے والے نے اپنی صلاحیت اور استعداد کے تحت یہ رائے دی ہے۔ ان کے دیکھنے کے لحاظ سے یہ ایک سچ ہی ہے۔ ان کا سچ۔ ضروری نہیں کہ یہ حرف بہ حرف ہمارا بھی سچ یا ضرورت ہو۔ اس کو جانچیں۔ اور جہاں اگر وہ اصل موضوع سے ادھر ادھر بھٹکنے لگیں تو انہیں بے شک یاد بھی دلادیں کہ بات کیا ہورہی تھی بولیں تھینکس کہ ہمیں ہماری ذات یا بات کے نئے پہلو سے متعارف کروایا۔
آج یہ لوگ کیا کہیں گے کے سلسلہ کا آخری مضمون ہے۔ ہم سب واقف ہیں کہ ہمارے معاشروں کی سماجی و ثقافتی روایت میں منہ پر تعریف کو پولائیٹ مینرز اور پیٹھ پیچھے برائی کو گوسپ اور فن کا نام دیا جاتا ہے۔ بلکہ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ برائی تو وہ اگلے کے سامنے پر بھی کر سکتے ہیں۔۔ ڈرتے تھوڑا ہی ہیں۔ حلانکہ وہ سامنے کرتے نہیں ہیں بس سوچتے ہیں کہ شائد کریں گے۔ تاہم نظریاتی طور پر ہم ایسے نظام کا حصہ ہیں جو منہ پر تعریف اور پیٹھ پیچھے برائی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ شائد اصل میں اس سے یہ مراد ہے کہ منہ پر ہم کمیوں کو سدھارنے کے لیے بہترین الفاظ میں سیدھی سچی بات کریں اور غیر موجودگی میں دوسروں کو اچھے لفظوں سے یاد رکھیں۔ کیا کوئی طریقہ ہے کہ ہمیں کھلے دل سے اچھی اور تعمیری تنقید کا تحفہ قبول کرنا اور اچھے رنگوں میں ملفوف یہ تحفہ دوسروں کو دینا آجائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں