شناخت؟ رفتہ رفتہ مٹی ہے
میں اپنی پوری ایمانداری سے مانتی ہوں
وہ نہیں جانتے تھے۔ سب بتدریج شروع ہوا تھا
حلفیہ سب ہی سچ بولتے ہیں تو جھوٹ نے آہستگی سے
ان کتابوں میں چھوٹی لڑکی کی بہادری قصہ تھا
جو کہ رہی تھی دیکھو میرا خدا دیکھ رہا ہے
مگر جب کتاب پر تہ بہ تہ گرد جمی تو سچ کی دمک بھی مانند پڑگئی
سب کچھ ہمارا ذاتی مسئلہ بن گیا تھا کہ سب ہی اپنے اپنے طور
چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑ رہے تھے ۔ مگر وہ ایک فوج نہیں تھے
نہ ان کا کوئی کاز تھا نہ کوئی منزل
میں پوری ایمانداری سے مانتی ہوں کہ انہیں نہیں پتہ تھا
کہ کچھ لڑائیاں جیت لینا فتح نہیں ہے
وہ جنگ پھر بھی ہار جائیں گے۔ اور وہ ہار بھی گئے تھے۔
سبھی ۔۔ کہ سچائی کا صرف کوئی ایک ٹکڑا دل سے لگائے ہوئے تھے
اور ہم نے پوچھا۔ہم پاک کیسے ہوں؟ اور وہ بولے راتوں میں جاگو اور مانگو
اور کچھ تو ہم میں ساری ساری رات جاگے۔
اور ہم نے پوچھا ہم کیسے ربط رکھیں؟ اور وہ بولے ہر وقت یاد رکھو
اور کبھی تو ہم ہر سانس میں یاد کا اہتمام کرتے
اور ہم نے پوچھا۔ ہم بخشش کیسے پائیں؟
اور وہ بولے ندامت کے آنسو بہت بہاؤ
ہم دل کی گہرائیوں سے اتنا روئے کہ بے دم ہو گئے تھے
پھر ہم نے کامیابی کا رستہ پوچھا
اور وہ بولے ایک صبر اور ہم وہیں پر تھم گئےتھے۔
اور آگے نہیں بڑھے ہم۔
میں پوری ایمانداری سے مانتی ہوں کہ ہم بھی نہیں جانتے تھے
جیسے تیزاب مادے کو رفتہ رفتہ مٹاتا ہے
ایک مورگیج اور دو سیونگ اکاؤنٹ اور رات کی تین موویز
اور چار تفریحی ڈنر آؤٹ اور پانچویں بھولی ہوئی نماز اور چھے عام سے جھوٹ
اور ساتویں دن دل پر غفلت کا ایک سیاہ نکتہ بنتا ہے
لیکن ہمیں معلوم نہیں یہ حقیقت ہے کہ کوئی بات یا صرف تھیوری
تھیوریز کا کیا یقین کرنا۔ اور حقایق کا۔ یہ کچھ زیادہ ہی ہوجائے گا
بہت مشکل کام ہے یہ تو۔ ندامت کے آنسو آنکھوں میں بھرنے
اور سانسوں کی لے پر یاد کرنے سے بہت زیادہ مشکل
ہم گواہی دے دیں کہ ہم بھی
سچائی کا صرف کوئی ایک ٹکڑا اپنے دل سے لگائے ہوئے تھے ؟
اور شناخت یونہی مٹی ہے
وہ رات رات بھر جاگتے ہیں۔ ایک ہی مقام پر تھمے ہوئے ہیں
کیسی گہری سانسیں ہیں انکی۔ بلند آواز میں رو بھی رہے ہیں
مٹنے کی رسمیں اور پنپتی ہیں۔ آگے چلتی ہیں
میں پوری ایمان داری سے مانتی ہوں وہ جانتے نہیں ہیں
ہم میں سے کوئی بھی نہیں جان پایا
مگر بہت جلد ہم سب ہی جان لیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں