03 ستمبر 2023

بیٹھے رہیں

کمفرٹ زون کا اصل مفہوم تو راحت کدہ بنتا ہے لیکن وہ ایک ادارے کا نام ہے پھر آرام کدہ سوجھا وہ بھی ایک ادارے سے متعلق ہے۔ کل گوگل نے اس کو ذہنی آسائش کا دائرہ کہا تھا لیکن چونکہ آسائش بھی فارسی کا لفظ ہے تو کدہ کے ساتھ اس کا مرکب جائز ہے۔ یہ آسائش کدے  ہماری دماغی طبع اور جسمانی رویوں کی ایسی رہائش گاہیں ہوتی ہیں جہاں ہم خود بھی سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس مداخلت سے باز رکھتے ہیں۔ ایسے نہیں کہ وہاں کوئی آ نہیں سکتا ۔ حالات و واقعات اور لوگ اکثر کوشش کرتے ہیں کہ اسے تہ و دوبالا کرتے رہیں۔ لیکن ہمارے بہت سے میکنزم ہوتے ہیں جس سے ہم ان حملوں کو ناکام بناتے رہتے ہیں۔

کمفرٹ زون کا تعلق ہمارے جذباتی سکون یاجسمانی راحت سے ہوتا ہے۔ ہم روز مرہ میں جو بھی زندگی بسر کرتے ہیں اس میں ایک خاص درجہ کا آرام و سکون ہمیں میسر ہوتا ہے ۔ بیشتر اوقات ہم بری طرح اس کے عادی ہوتے ہیں خواہ وہ صبح میں ایک کپ چائے کی سادہ سی عادت ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے باہر نکلنا، کسی قسم کی تبدیلی برداشت کرنا ہمیں بہت کھلتا ہے۔ لیکن ہم انسان ہیں پھر بھی ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔

اب کوئی پوچھے گا اگر کمفرٹ زون کی تبدیلی برداشت کرنا مشکل ہے تو ہم ایڈجسٹ کیوں کر لیتے ہیں۔ شائد اس لیے کہ ہم عموما بڑے آرام کے لیے چھوٹی چھوٹی راحتوں کو قربان کردیتے ہیں۔ ہمارا دماغ یہ حساب کتاب بہت سرعت و باریک بینی سے لمحوں میں سرانجام دیتا ہے۔ کچھ ایسے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا ہم  کہاں کس کس شے کے لیے کن کن سمجھوتوں پر سائن کر جاتے ہیں۔ جی نہیں میں سیورے یا ابراہم اکارڈ کا ذکر نہیں کررہی۔ نہیں نکاح نامے اور طلاق نامے بھی زیر بحث نہیں ہیں ۔ بات صرف یہ ہورہی ہے کہ اٹھ کر کھانا پکایا جائے یا آج آرڈر کر دیں پھر؟

کوئی بھی بڑا کام کرنے کے لیے۔۔ نہیں کوئی بھی کام کرنے کے لیے ہمیں کسی حد تک اپنے آرام کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ جیسے کہتے ہیں نا کچھ پانے کے لیے ۔۔ عموما ہمیں اپنے لگے بندھے معمولات میں کوئی ایسی تبدیلی لانی ہی پڑتی ہے جس سے ہماری نئی ضروریات کے لیے جگہ بن سکے۔ میں پودوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اپنی ضروریات کی دیکھ بھال کرنے کے لیے یہ کیسے آہستہ روی سے ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے کام کرتے رہتے ہیں۔ پانی کی تلاش میں اپنی جڑیں دور دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ روشنی کی خواہش میں سورج کے ساتھ ساتھ چہرہ پھیرتے رہتے ہیں۔ ناتواں بیلیں اپنی بقا کے لیے آس پاس موجود پودوں پر قدم جماتی سر اٹھائے بڑھتی رہتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ فطرت کا ہر عنصر خود کو ایسے باقی رکھنے پر قادر ہے۔ جو چیزیں ایک ہی مقام و ماحول میں مقید رہتی ہیں وہ اپنی ضروریات پوری نہ کرپانے پر ۔اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے ہار بھی جاتی ہیں۔ لیکن انسان کیا کرتا ہے؟ ویل۔ انسان زیادہ خاص ہے۔ اسے بہت فنکاریاں آتی ہے۔کہ ایسے بھی ٹھیک ہے ۔ سب چل رہا ہے۔۔ کچھ پانے کے لیے کچھ۔۔وغیرہ ۔ پھر انسان اپنی ضروریات محدود کرنا شروع کر دیتا ہے۔ عزت کی دو روٹی اور گھر بسائے رکھنے کے مقدس عقائد ۔ سیاسی و فکری ہم آہنگی کی تھیوری، قومی امن و وقار کے فلسفے اور نہ معلوم کیا کیا۔ ہمارا دماغ ہماری جسمانی اور جذباتی بزدلی کو ہماری خود حفاظتی کی جھوٹی سچی دلیلوں میں ملا کر ہمیں گولی کراتا رہتاہے۔ جو اب پین کلر یا سکون آور ادویات کے نام سے بھی بکتی ہیں۔ہم گولیاں کھا کر یقین اورمحکم کر تے جاتے ہیں۔ ہم اور مختصر ہوتے جاتے ہیں۔ محدود و محصور، ہم خود پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور جو ہے جیسا ہے ٹھیک ہے کے تحت اپنی تمام آزادیاں ایک ایک کر کے فراموش کر دیتے ہیں۔ کیا یہ غلط ہے؟

یہاں آکر میں عموما ڈبل مائینڈد ہو جاتی ہوں یعنی اگر یہ غلط ہے تو میرا کیا خیال ہے کہ میں سارا دن ہر بات پر ایک معرکہ کھڑا رکھوں ۔اپنے پرسکون آسائش کدے سے باہر آؤں اور ہر شے کو ہر وقت تبدیل کرنے کی کوشش کرتی رہوں۔ پھر میں خود کو سمجھا تی ہوں کہ نہیں نہیں میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ میں کب کہ رہی ہوں کہ ہر روز گھر کو ری ڈیکوریٹ یا فرنیچر کو ری ارینج کرو۔ روٹی( کی کوالٹی)، کپڑے( کے برانڈ) اور مکان (کے حجم ) پر کون روز روز سٹینڈ لیتا ہے۔ ایڈجسٹ کر ہی لیتے ہیں لوگ۔۔ مگر ۔ وہ۔ معاشی دہشت گردی، معاشرتی بربریت، سیاسی بدعنوانیوں اور مذہبی جنونیت ۔وغیرہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر نہیں تو کل کی لسٹ سے اچھا سا بہانہ سلیکٹ کرتے ہیں اور بیٹھے رہتے ہیں تصورِجاناں کیے ہوئے۔


کوئی تبصرے نہیں: