شمٹ سکیل پر ایک انچ بڑی بلٹ اینٹ کے کاٹے کو لیول فور کی درد تسلیم کرتا ہے یعنی “خالص، شدید شاندار درد “ جو جلتے کوئلوں پر پاؤں میں تین انچ کھبے کیل کے ساتھ چلنے کے مترادف ہے جو چوبیس گھنٹے رہتا ہے۔ شمٹ اس درد کو فہرست میں درد زہ سے اوپر رکھتا ہے اور اس میں جھگڑنے کی کوئی بات نہیں کیونکہ کسی عورت نے آج تک شائد اپنے خالص شاندار اور شدید درد کی تفصیلات ٹھیک سے ریکارڈ نہیں کرائیں جو شروع تو بچے کی پیدائش کے دوران ہوتا ہے لیکن چوبیس گھنٹے نہیں رہتا۔ وہ درد سالوں جسم کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا ذات کے وسط میں جاکر ٹہر جاتا ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتا۔۔ دل تک پہنچنے والا درد شائد تین انچ لمبے کیلوں گندھی تار سے بنی جلتے کوئلوں کی لڑی کو نگلنے جیسا ہی ہوتا ہے لیکن ہم نے کبھی ایسی کوئی تار اصل میں نگل کر نہیں دیکھی۔ ہوسکتا ہے وہ نسبتا آسان ہو۔ بہرحال یہاں درد کی شدت کا کوئی مقابلہ منعقد نہیں ہو رہا۔ ہمارا اصل موضوع یہ ہے کہ ایپیڈیورل وایکوڈین یا نورکو کیوں ایجاد ہوئیں۔ کیوں آج ہم میں سے کوئی بھی ذرہ بھر بھی درد نہیں سہنا چاہتا۔ کیا درد بڑھ گیا ہے یا برداشت کم ہو گئی ہے؟
پرانے زمانوں میں تکلیف سہنے کو۔ عمدگی اخلاقی بڑائی عوامی بھلائی اور روحانی بالیدگی سے جوڑا جاتا تھا۔ مصائب سے پامردی سے نمٹنے والا شخص مذہبی شہادت اور معاشرتی فضیلت کے تصورات کو اپنے خون پسیبے سے پروان چڑھاتا تھا۔ کہیں تو یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ روحانی و عقلی طور پر اعلی انسان غم اور خوشی کی وقتی لہروں سے اوپر اٹھ چکا ہوتا ہے۔ یہ معمولی جذبات اس کی کور کو نہیں ہلا نہیں سکتے۔ تو پھر اس کا سہرا بھی ہم فرائڈ کےسر باندھ دیتے ہیں۔ سائیکوانیلیٹیکل تحقیقات کے ذریعے اس نے دعوی کیا کہ بچپن کے برے واقعات۔ خواہ بھلا بھی دیے جائیں انسانوں میں دور رس نفسیاتی نقائص و مسائل کی بنا ڈالتے ہیں۔
شائد اسی لیے اب ہم انسانی تاریخ کے سب سے اینٹائیٹلڈ دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم بچوں کو کسی گارگردگی کے بغیر ٹرافیاں دیتے ہیں۔ ہر قسم کے مسائل سے بچانے کے لیے ہر کونے کو سیف سپیس قرار دیتے ہیں۔ جھوٹی تعریفوں سے انکی سیلف اسٹیم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے کردار کی کمیوں کو سدھارنے کی بجائے ان کو خود کو ہر حال میں قبول کرنے کی راہ سجھاتے ہیں۔ انہیں مضبوط کرنے کی بجائے محفوظ کرنے سے ہم نے ہیڈونزم کے نئے دور کا اجرا کیا ہے جس میں صرف خوشی ایک ایسی جنس ہے جس کے لیے تمام زندگی وجود میں آئی ہے۔ اور اس خوشی کے لیے وہ جو چاہیں جب چاہیں جیسے چائیں کر سکتے ہیں۔ کہیں بے جا روک ٹوک اور سختی ان میں نفسیاتی مسائل نہ پیدا کردے۔۔
لیکن جیسا کہ ہم پہلے پڑھ چکے ہیں سو فیصد خوشی۔ خوشی کے مفہوم کو بدل دیتی ہے۔ ہمارا خوشیوں کو پہچاننے کی حسیات مرنا شروع ہوجاتی ہیں۔ خوشی کی تعریف بدلنا شروع ہوجاتی ہے۔ کہیں دولت سے خوشیاں خریدی جاتی ہیں اور خوشی کی ہر تعریف مادی ہے۔ عمدہ زندگی بڑے گھر فارغ البالی مہنگے سفر اور کپڑے وغیرہ۔ لیکن کیا اس کا کوئی علاج ہے کہ ہر خوشی ایک مختصر وقت کا ایک ہائی ہے۔ اس کے بعد اسے ختم ہونا ہی ہے۔ اور اس سے بھی اچھی خبر یہ ہے کہ ہر خوشی کے ختم ہونے کی خالی جگہ پر کرنے کے لیے جسم کو وقتی ہی سہی ایک غم درکار ہوتا ہے۔ ہم خود پر جتنی خوشی انڈیلیں گے ہمارا بدن قدرتی توازن برقرار رکھنے کو اتنا ہی دکھ تکلیف پیدا کرے گا۔ نتیجتا خوشیوں کی پیاس بڑھتی جائے گی اور غم کی برداشت کم ہوتی جائے گی۔
انسانی دماغ کو تکلیف پیدا کرنے کے لیے ہر وقت بلٹ اینٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اسے صرف اس کے تصور کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم ہر قسم کا درد خود بنا سکتے ہیں اتنا کہ اس کی شدت کو سکیل پر بھی شو کر سکتے ہیں۔ ہاں ایسا ہی کچھ تخلیق کار ہے ہمارا دماغ۔ آنکھ کے آنسو سے لے کر ہا رٹ اٹٰیک تک سب اس کے دائیں ہاتھ کا کمال ہے۔ ہماری اعلی تعلیم۔ روپے کی فراوانی ۔ زندگی کی آسانی۔ فیملی سپورٹ۔ دوست احباب کچھ بھی ہماری کلفت کو کم نہیں کر سکتا سوائے درد مٹانے والی گولیوں کے اور انسٹنٹ خوشیوں کے۔ انسٹنٹ خوشیاں ہم سینکڑوں اقساط کی ٹی وی سیریز ہر قسم کی موویز منشیات ویڈیو گیمز اور سوشل میڈیا کے ٹرینڈز سے کشید کرتے ہیں۔ یہ زینیکس ہیں۔ پروزیک ہیں۔ یہ بے راہ روی ہیں۔ سائیکاڈیلکس ہیں۔ یہ فیس بک لائیکس ہیں وائرل ٹویٹس ہیں۔ملین سبسکرئیبرز ہیں۔ یہ ویمپائرڈائیرز ہیں اور یہ ایک لمبی لسٹ ہے۔ لیکن ان لمحاتی خوشیوں کا اثر لمحہ بھر کھو جاتا ہے۔ تو کبھی کبھی یہ بڑا درد ہیں۔ یہ خود اذیتی ہیں ۔ احمقانہ رسک ہیں یہ خود کشی کی کامیاب و ناکام کاوشیں ہیں۔ کس نے بتایا تھا کہ خوشیوں کا تعاقب آسان ہوتا ہے۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں