16 ستمبر 2023

خوشی کے تعاقب کا وبائی مرض ۴


پھر یہ ہوا کہ عوام الناس کے لیے سو ڈیڑھ سو سال سے خوشی دولت کے حصول اور ریل پیل کے ساتھ ہی منسلک ہوکر رہ گئی۔ دولت زندگی کی آسائشوں کے حصول میں مددگار ہے ۔ آسائشیں تن آسانی اور لطف اندوزی کے لیے وقت مہیا کرتی ہیں۔ دولت معاشرے میں طاقت، اثر رسوخ، قبولیت، مقبولیت وغیرہ کی سہل فراہمی ممکن بناتی ہے۔ اور انسان پچھلی چند صدیوں میں باہمی استحصال، قتل و غارت اور سفاکیت میں تاریخ کے ایک بدترین دور سے گزرے ہیں۔ ان کا اپنی انسانی عظمت، روحانی و معاشرتی اقدار پر سے اعتبار شائد اٹھنا ہی تھا۔ تاہم اپنی جنیاتی بنت کی وجہ سے کسی نیوکلیس، کسی مرکزی خیال کے گرد پھیرے ڈالتے رہنا انسان کی مجبوری ہے۔ مادیت سے وابستہ خوشی بہت روز تک ایک نیا مرکز رہا۔ غم عشق گر نہ ہوا غم روزگار ہوا۔ 

پرسیوٹ آف ھیپی نیس مووی میں ول سمتھ امریکی خواب کا پیچھا کرتا ہے مووی اصل میں ایک کرس گارڈنر کی ااسی نام کی کتاب پر بنائی گئی ہے جو اپنی زندگی میں اپنی محنت سے اپنی زندگی تبدیل کرتا ہے اور کڑوڑ پتی بن جاتا ہے ۔اپنی دولت سے وہ دوسرے غریب اور بے گھر لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کتاب بہرحال مووی کی نسبت کم گلوسی اور حقیقت کے زیادہ نزدیک ہے۔ عوام الناس شائد مووی سے یہی پیغام اخذ کریں گے کہ اگر آپ بھی خوشی چاہتے ہیں تو امیر ہو جائیں۔ 

مووی کے آغاز ہی میں ناظرین کا ووٹ سخت کوش مگر مجبور ہیرو کی جدوجہد کرتے ول سمتھ کے حق میں ہو جاتا ہے ۔ہم اس کی تمام تر مشکلات کے حل ہونے کے بارے میں پرامید رہتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے اس کی محنت، اس کا دل اور دماغ صحیح سمت میں ہیں۔ بہرحال اس کی خوشی کا ورژن مصر ہے کہ اسے غریبی میں نہیں بلکہ امیری میں نام پیدا کرنا ہے۔اسے اپنے خاندان کے لیے صرف ایک محفوظ مستقبل یا تھوڑی بہتر زندگی نہیں چاہیے بلکہ اسے بہترین چاہیے۔ یعنی اعلی پرآسائش زندگی، اسٹیڈیم کی باکس سیٹیں۔ اسپورٹس کار ۔بڑے مکان۔ مالی فارغ البالی۔ شائد اسی لیے کام کے لیے بھی اس کی نظر وال اسٹریٹ پر ہی ہے۔ 

ول جو کرس گارڈنر کا کردار ادا کر رہا ہے کہانی میں مختلف مقامات کو مختلف نام دیتا ہے جیسے ۔ ایک حصہ “بس چڑھنا” ہے پھر بیوقوف بننا۔ ڈوڑنا۔ انٹرن شپ ٹیکس ادا کرنا اور آخر میں وہ کہتا ہے یہ حصہ یہ چھوٹا سا حصة کہلاتا ہے خوشی۔ جب اس کو بروکر کی جوب مل جاتی ہے۔ لوگوں کو اس بات پر زیادہ اعتراض نہیں ہوگا کہ کامیابی سکرین پر اتنی آسان کیوں لگتی ہے۔ کیونکہ ہالی وڈ کی موویز میں بہرحال غربت کا تصور تھوڑا آگے پیچھے ہوجاتا ہے۔ غربت کو  سمجھنے کے لیے اس کو جینا پڑتا ہے اور ہالی وڈ تک پہنچ کر شائد یوں بھی پرانی یاداشت دھندلا جاتی ہوگی۔ اور وہ خوشی کے چھوٹے دورانیے پر بھی معترض نہیں۔ 

لیکن اصل اعتراض کی بات یہ ہے کہ ایک کسی حد تک انصاف پسند اور آزاد معاشرے سے خوشی کے تعاقب کا یہ تصور جب وبا کی طرح باقی کی دنیا میں پھیلتا ہے تو ایک کٹ تھروٹ قسم کا خودغرضانہ فلسفہ بن جاتا ہے۔ آبادی اور وسائل کے اتنے متنوع تناسب کو کامیابی کے ایک سے کلیے سے حل کرنا ویسے بھی ناممکن تھا۔ اگر آپ نے بھی میری طرح اپنے دیس میں “بس پر چڑھنے سے بیوقوف بننے اور دوڑنے سے انٹرن شپ تک والے کہانی کے حصے نمٹائے ہوئے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا خوشی کے اس ایک لمحے کی اصل قیمت کیا ہوسکتی ہے۔ 

یہاں معلوم نہیں کیوں مجھے ہندی مووی سیریس مین کا ایان مانی یاد آگیا جو اپنی بیوی کو فور جی ماڈل سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ زندگی میں کچھ نہ کرنے کے لیے ۔ یا پول کے گرد بے فکری سے جینے کے لیے چار جنریشن لگتی ہیں اور اس کی اصل بنیاد تعلیم کی اہمیت سمجھنا ہے۔ مووی میں ایان دیے گئے امکانات میں اپنے فلسفے سے اپنی متوقع کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہی رہتا ہے۔لیکن مشرق میں لوگ اپنی خوشیوں اور کامیابیوں کو مکمل طور پر اگلی نسل کو آؤٹ سورس کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔اور اسی بنیاد پر ان کی فتحیابی کی داستانیں بھی ترتیب پاتی ہیں۔ 

دنیا بھر میں یار لوگوں نے اپنے اپنے طور امیریکن ڈریم کو قومیانے اور اپنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ اور یہ بھی ہوا کہ امیریکہ خوابوں کی منزل بن گیا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ لیکن لوگوں کی خوشیوں میں کچھ خاطر خواہ اضافہ نہٰیں ہوا۔ کئی مقامات پر تو کرنسی ڈی ویلیو ہونے سے خوشیوں کی قیمت کچھ اور بھی بڑھ گئی۔ اسکی ذخیرہ اندوزی تو پہلے بھی ممکن نہیں تھی روز تازہ ہی کشید کرنی پڑتی ہے۔ سوعوام الناس کی وہی خواری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ جب زندگی کا اصل مقصد خوشیاں سمیٹنا ہو اور خوشیاں قیمتی ہوں تو کیا آپ پوری قیمت دیں گے یا میری طرح سیل لگنے کا انتظارکریں گے؟


۔۔۔ 

خوشیوں کا تعاقب ۔ جاری ہے۔


کوئی تبصرے نہیں: