(لوگ کیا کہیں گے ۳)
لوگوں کی رائے کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں۔ جیسے عوام کی رائے، قانون کی رائے، ماہرین کی رائے ۔غیروں کی رائے۔ اپنوں کی رائے ۔ ذہنی طور پر ہم قانون اور ماہرین وغیرہ کی رائے کو ماننے میں زیادہ پس و پیش نہیں کرتے کیونکہ سب ہی مان رہے ہوتے ہیں اور نہ ماننے کے نتائج و عواقب بھی پیش نظر ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے اپنے (جیسے گھر خاندان والے دوست احباب) اور غیر (جیسے اگلے محلے والے دفتر و کاروبار والے، دوسرے جاننے والے، کزن کا سسرال) جب کوئی رائے دیتے ہیں تو اس کی اہمیت ہمارے دماغ میں مختلف طریقے سے رجسٹر ہوتی ہے۔
غیروں کے رائے ہم سنتے ضرور ہیں کیونکہ وہ ہمیں اور ہم انہیں کسی نہ کسی حد تک جانتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہماری رائے متعین کرتی ہے کہ ہم نے ان کی رائے کو کتنا وزن دینا ہے اور اسی لحاظ سے ہم اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے یہ رائے عموما ہمارے ظاہر کے بارے ہی میں ہوتی ہے اور ہم اسے ویو ایز کے طور پر لیتے ہیں۔ ہمارے پبلک پرسونا کی تعمیر اور سیلفی سیلیکشن میں اس رائے کا کافی ہاتھ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس اپنوں کی رائے صرف ہمارے ظاہر کے نہیں بلکہ ہمارے جذبات و احساسات کے متعلق ہوتی ہے۔ ہماری کامیابی اور ناکامی۔ ہمارے ارادے اور عزائم ۔ ہماری پسند نا پسند ۔ ہمارے اپنوں کی رائے اس سب کو متاثر کرنے کی گہری صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے کہے ہوئے چند الفاظ ہماری زندگی کو بنا یا بگاڑ سکتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ہم ان کی باتوں کو بآسانی دل پر لے لیتے ہیں۔
اصل میں اپنوں کی رائے ہی بچپن سے ہمارے جذباتی میک اپ کی بنیاد ڈالتی ہے۔ غیر مشروط محبت ایک بچے کو پراعتماد طور پر پروان چڑھاتی ہے لیکن بے وجہ کی تنقید اور روک ٹوک، کسی کمی یا غلطی پر ضرورت سے زیادہ فوکس بچے کو اس سے کہیں زیادہ خوفزدہ و بے چین کرسکتی ہے جتنی ہم بڑوں کو کر سکتی ہے۔ یہ خوف اور بے چینی یعد میں ان کے مستقل کے تمام رویوں کو متاثر کرتی ہے۔
جب ہمارے پیارے کسی درجے پر بھی ہمیں مسترد کرتے ہیں تو ہم فورا اپنے دفاع پر اتر آتے ہیں۔ ہم ان کی نظر میں کسی طرح بھی کم تر نہیں دکھنا چاہتے۔ اور خود ہم اپنے لیے بھی اس ویلیڈیشن و قبولیت پر انحصار کررہے ہوتے ہیں تبھی اکثر یہ تنقید کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں ہوتی۔میرا خیال ہے اگر ہم اپنی بے دھیانی سے دی ہوئے مزاحیہ تنقید کو دوسروں کے جذبات خصوصا بچوں کی حساسیت کے لحاظ سے اور اپنے ردعمل کی روشنی میں دیکھنا شروع کردیں تو ہماری گفتگو کا انداز بالکل بدل جائے گا۔
اپنی مدافعت، خود حفاظتی اور اپنوں کی نظر میں ناکام و نالائق قرار پانے سے بچنے کے لیے ہم شعوری لا شعوری طور پر مختلف قسم کے طریقہ کار اپناتے ہیں مثلاً ہم کچھ بھی نیا نہیں کریں گے ۔ نئے کام ہمارے لیے ایسے خطرات کی مانند ہیں جن میں ہمارا دوسروں کی توقعات پر پورے نہ اترنے اور انہیں مایوس کرنے۔ اور نتیجتاً ان کی غیر مشروط قبولیت پانے میں ناکام ہونے کے چانس ہیں۔کیوں نہ ہم اپنی اور ان کی توقعات کو امتحان میں ڈالنے سے جتنا ممکن ہو گریز کریں؟
اس کے برعکس بعض اوقات ہم قربانی کی مثال بن جاتے ہیں۔ اپنی ضروریات، خواہشات ترجیحات و جذبات کو مکمل طور پر پس پشت ڈال کر ہر لمحہ دوسروں کی خوشنودی کے لیے پیش پیش ہیں۔ ہم کبھی پسند ناپسند یا ضرورت و احتیاج رکھنے والے ایک جیتے جاگتے فرد کے طور پیش نہیں ہوں گے۔ نتیجاً اب ہم ایک ناموجود غیر حقیقی فرد ہیں۔ اور یہ عدم وجودی صرف جذباتی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ نظریاتی بنیادوں پر بھی لاگو ہے۔
کیونکہ ہر شخص کو ہر وقت خوش رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اس لیے اختلاف سے گریز کرنا نہایت ضروری ہے۔ جب کوئی اختلاف نہیں ہوگا تو کوئی کس بات سے ناراض ہو گا؟ اب دنیا کے کسی معاملے میں ہماری کوئی رائے نہیں ہے۔ سیاست میں بھی ہم غیر جانبدار ہیں اور ریستوران میں بھی ہم وہی کھا لیں گے جو آپ آرڈر کررہے ہیں۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑٹا ہے کہ آخر میں پیپل پلیزنگ کے اس مشکل مہم میں ہمارا اوج کمال سب لوگوں کی( غیر مشروط؟) پسندیدگی اور محبت نہیں بلکہ ہمارا شخصی استحصال ہی ہے۔
پرفیکشن کی خواہش بھی اس ہی طرح کی ایک مدافعاتی تکنیک ہے۔ ہم ہر کام کو درجہّ کمال تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ لوگوں کی واہ واہ ہمارے کمال کی سند ہے اور یہاں پر سب کہیں گے اس سے اگر کام کی بہتری ہو رہی ہے تو کیا حرج ہے۔ کوئی حرج نہیں سوائے اس کے کہ ہماری نیت تو کام کی بہتری نہیں بلکہ دوسروں کی منظوری تھی، ہم پراجیکٹ کو نہیں اپنی ذات کو اپروو کرانے کے لیے پچھلے تین دن سے سوئے بغیر ایک پاؤں پر یا سر کے بل کھڑے ہیں یا کم ایکسٹریم صورتحال میں ان دوپٹوں پر کناری ٹانک رہے ہیں۔ اوکے مجھے نہیں معلوم کہ ہم کس کام کو پرفیکٹ کرنے میں مشغول ہیں لیکن ہماری غلط وجوہات اس سے ہمیں کبھی بھی صحیح خوشی یا سکون اخذ نہیں کرنے دیں گی۔
لوگوں کی شدید تنقید کا ایک عجیب اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ان کی باتوں سے بچنے کے لیے ان کاموں کی بجائے ان لوگوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہم نہ صرف اپنے پیاروں سے خود کو دور کر لیتے ہیں بلکہ ہم تمام لوگوں کو ہی ایک محفوظ فاصلے پر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس چیز کی بنا بھی عموما بچپن ہی میں پڑتی ہے بچوں کو اس قبولیت کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ والدین کے رویے اور دوسرے قریبی عزیزوں کی مثبت رائے ان کی جسمانی جذباتی و روحانی ہر قسم کی تشکیل میں معاون و مددگار ہوتی ہے۔
لیکن خود کو ملنے والی جذباتی لاتعلقی اور سخت تنقید کی بنا پر ہم خود کو اس ضرورت سے الگ تھلگ کر نے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ عین ممکن ہے اس سے وقتی طور پر ہماری جذباتی خود انحصاری بڑھ جائے لیکن لونگ رن میں ہمارے لیے دوسروں پر اعتبار کرنا، گہرے رشتے استوار کرنا اور اپنے جذباتی دکھ کے لمحات میں اپنے پیاروں کو شریک کرنا قریبا ناممکن ہو جاتا ہے۔
تاآنکہ ہم شعوری فیصلہ کے تحت خود کو باور کرائیں کہ لوگوں کی رائے صرف رائے ہی ہے۔ وہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ وہ غیر اہم و غیر ضروری بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس شعوری فیصلہ کہ لیے اہم ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے آپ سے واقف ہوں ، خود کو اچھی طرح سے جانتے ہوں۔ گو خودآگہی اور خود شعوری ایک لمبی ریاضت ہے۔ لیکن زندگی کا کوئی بھی لمحہ اس پہچان کا نکتہ آغاز بن سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ لمحہ آج ہو۔ہوسکتا ہے وہ لمحہ ابھی ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں