ہم سب کی ایک عدد رشتہ دار یا آنٹی ایسی ہوتی ہیں گی جن کے پاس ہر مشکل کا ایک آزمودہ وظیفہ ہوتا ہے۔ دلیل کے طور پر ایک متاثر کن کہانی بھی۔ وہ مصر ہیں کہ میں ادھر ادھر کی باتیں نہیں کرتی ۔اور ویسے بھی یہ قرانی دعائیں ہیں۔ اللہ کے نبیوں نے مانگی ہوئی ہیں۔ رب انی ۔ بس ایک دفعہ شروع کرو ۔ تہجد یا فجر سے پہلے ،عصر یامغرب کے بعد وغیرہ ۔ ابھی چالیس دن نہیں گزریں گے کہ کام جو بھی ہو۔۔ بس نیت نیک ہونی چاہیے۔ اور ہم سب ہی عقیدت میں قریبا ان کے ہاتھوں کو چومنے والے ہو جاتے ہیں۔ اور اکیس روز میں نئے آپ، نئی زندگی ۔ کے فارمولے بیچنے والوں کے لیے بھی ہمارے کچھ ایسے ہی جذبات ہوتے ہیں۔
بیشتر لوگ اکیس روز میں نئی عادات قسم کے دعوؤں کو میکسویل مالز سے منسوب کرتے ہیں جس نے خیال ظاہر کیا تھا کہ انسان کم از کم تین ہفتے اپنی سرجری کے اثرات سے مانوس ہونے میں لگاتا ہے۔ حلانکہ نئی عادات بنانے اور پکانے ۔ یا کوئی ہنر اپنے عام معمول کی طرح اپنانے میں ایک سے نو ماہ تک لگ سکتے ہیں۔ خاموشی کے دس سال ایک اور تحقیق ہے جس میں جان ہیز پہلے میوزک کے پانچ سو۔ اور بعد ازاں مشہور شاعروں اور مصوروں کے جائزوں سے نتیجہ نکالتا ہے کہ ان تمام ماسٹر ورکس کے پیچھے قریبا دس ہزار گھنٹوں کی محنت شاقہ شامل ہے۔
اتنے سارے گھنٹوں اور اتنی ساری محنت کے مقابلے میں تیس دن میں زندگی بدلنے سےلیکر من کی تمام نیک نیت مرادوں کے بر آنے کا خیال بہت خوش کن ہے ۔ ادھر شروع کریں ادھر فوری نتائج حاصل۔ جبکہ دیر پا نتائج کے لیے ہماری نظر انجام کی بجائے اس کے پروسس پر رہتی ہے۔ لمبے عرصے میں استقلال سے ہونے والے کام میں ایک لمحے میں کوئی خاص سود و زیاں نظر نہیں آتا۔ لیکن مہینوں اور سالوں بعد ایک قابل قدر اچیومنٹ ہمارے سامنے ہوتی ہے۔ فطرت کے دوسرے تمام نظاموں میں دھیرج کو خاص اہمییت حاصل ہے ۔ لیکن ہم انسان فطرتا جلد باز واقع ہوئے ہیں۔ تبھی تو اگر ہم پہلے نہیں سمجھے تو وقت بہت تفصیل سے ہمیں سمجھاتا ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی۔ پھر صبر اور استقلال سے ہماری واقفیت اور انسیت بڑھ جاتی ہے۔
جب ہم ان خاتون سے کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی بات آپ کر رہی ہیں وہ تو کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کیے بغیر ہی۔ خاموشی کے کم از کم دس سال اور کبھی اس سے بہت زیادہ اپنے مقاصد کی راہ میں ان دعاؤں کے ساتھ چلتے رہے ہیں۔ اس طویل مدت کی محنت کی سمت اور نیت کے فوکس کا ایسا شارٹ کٹ کیسے بن گیا؟؟ وہ کہتی ہیں اعتقاد کی بات ہے ساری۔ ہم ایک عمیق سی سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اعتقاد اپنی دُھن میں بولے جارہا ہے۔ اصبرو وصابرواورابطو ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں