اولمپک نیشنل پارک میں کچھ بہت ہی خوبصورت ٹریلز ہیں۔اگر تم لیک کریسنٹ کی ہائیک چنو گے تو اس میں لگا بندھا کچھ نہیں گویا ہم اپنے اڈوینچر کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ساحل تک کی لمبی واک یا طلوع آفتاب کا نظارہ دیکھنے کو اکثر سیاح یہاں تادیر رکنے کا انتخاب ضرور کرتے ہیں۔ آج یہاں سے کیپ الاوا، سٹورم کنگ پہاڑ کی ٹریل کی جانب سفر کر رہا ہوں۔ لیکن کل میں ہوہ دریا کی ٹریل پر تھا جو پارک کے پیسفک شمال میں واقع ہے۔
ہوہ وائلڈ لائف کا ایک نسبتا گرم علاقہ ہے اسی لیے چند قدموں کے بعد ہی یہاں ہماری روزویلٹ ایلک، دریائی اوٹر، پرندے، کوہو سالمن، کالے ریچھ، بوبکیٹ وغیرہ سے ملاقات کا امکان ہے۔ یہ ایک لمبی راہ ہے جو آگے جاکر دوسرے راستوں میں مدغم ہو جاتی ہے لیکن اس راستے پر تین میل اندر کی جانب جائیں تو ایک خاص جگہ ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا پرسکون مقام ہے جسے قریبا بیس سال قبل ارتھ ڈے پر"شور کنٹرول پروجیکٹ" کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ مقصد ایک ایسے مقام کا تعین تھا جہاں دنیاوی شور کی دخل اندازی نہ ہو۔
اس کو "ایک سکوئر انچ خاموشی" کا نام دیا گیا ہے۔ اور اس کو قائم کرنے کے لیے میلوں دور تک ہر شے کو خاموش رکھنے کی تگ و دو ہوتی رہی ہے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ نہ ہو سکا کہ شور کو شکست دی جاسکے۔ یہ بہر حال ایک علامتی مقام ہے۔ اسے ایک سرخ پتھر سے مارک کیا گیا ہے۔ خواہش یہ تھی کہ یہاں جہازوں اور فونوں اور انسانی باتوں کے غوغا کی بجائے ایک سکون آمیز خاموش پناہ گاہ ہو جہاں لوگ خود بولنے کی بجائے فطرت کی آواز کو سنیں۔ یا کم از کم خاموشی کی خوبصورتی سے ان کا ربط بڑھے۔
ہر خاموشی کی اپنی دلکشی ہے لیکن تمہیں معلوم ہے دنیا کی خاموش ترین جگہ کونسی ہے۔یہ محبت سے تہی دامن ہونے والے انسان کا دل۔ جہاں آس پاس کی آوازیں سمٹ کر دور ہٹ جاتی ہیں۔ دنیا کا شور بجھ جاتا ہے۔ نہ پرندے چہچہاتے ہیں اور نہ فطرت بولتی ہے۔ کبھی تو سورج بھی وہاں نہیں جھانکتا۔ بھرے دن میں تاریکی ہوجاتی ہے۔ اس سرخ پتھر کو دیکھ کر نہ جانے کیوں ایک ایسے دل کا خیال آیا جس سے اسکی قیمتی متاع چھینی جا رہی ہو۔ اسکی بےبسی ایک خاموش جالا بن جائے یہاں تک کہ اس کی اپنی دھڑکن کی آواز بھی ڈوب جائے۔
زندگی کے سفر میں دل کی دھڑکن نہیں رک سکتی ۔ رکنی نہیں چاہیے۔ لیکن کبھی کبھی شائد دھڑکنا جاری رکھنے کے لیے لمحہ بھر کو رکنا بھی لازم ہو۔ یہ ایک بھاری لمحہ ہوتا ہے۔ مسافر کے پاس ایک پیر کے بعد دوسرا پیر اٹھانے کی سکت نہیں رہتی لیکن زندگی بھی ایک سفر ہے ۔مقیم کا اپنا سفر ہے اور مسافر کا اپنا۔ جہاں موت کی اپنی خاموشی ہے اور زندگی کی اپنی۔ اور تمہیں شائدلگے یہ بھی ایک ٹریل ہے جہاں ہمیں اپنے اڈوینچر کے انتخاب کا حق ہے۔ مگر نہیں اس خاموشی کو دوبارہ سنو۔۔ فطرت اپنی ریت میں بہت بے لوچ اور کٹر ہے۔
۔۔۔۔۔
ہچ ہائیکر کی کہانی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں