ایک فرضی مکالمہ۔
۔
مگر یہ کیا لکھا ہے؟
لائف لبرٹی اور پرسیوٹ آف ہیپی نیس
زندگی اور آزادی۔۔ ایک ہی بات تھی بہرحال چلو ۔لیکن ہیپی نیس؟
یہ وہ چیزیں ہیں جن کو اگلی نسلیں اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتی ہیں وہ جبری قوتوں کے پنجے سے نجات چاہتے ہیں۔ ہر جگہ لوگ اپنے حق کے لیے اٹھ رہے ہیں۔
تمہاری قریبا آدھی سے زیادہ آبادی باقی آبادی کے جبری قبضے میں ہے۔ وہ کیا کہیں گے؟ ان کے مالک کیا کہیں گے؟
مالکوں کو سمجھا دیں گے کہ ٹینشن نہ لیں۔ باقیوں کو بتانا ابھی ضروری نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کرنے کا حق تو سب کو ہونا چاہییے۔ اگر ہم مانتے ہیں کہ سب برابر ہیں۔
انہیں یہ حق ہے۔ لیکن آزادی کے لیے خود کو حقدار ثابت بھی تو کرنا پڑتا ہے۔
تمہیں اندازہ ہے نا کہ وقت کے ساتھ آخر کار یہ حق سب کو مل ہی جائے گا۔
ہاں ۔ ہم ہمیشہ کے لیے لوگوں پر کھلے عام قابض نہیں رہ سکتے۔ استبداد کو پردوں میں لپیٹنا پڑے گا۔
مگر زندگی کیا ہے؟ اور آزادی کیا ہے؟ خوشی کیا ہے؟
یہ تمہارے مقاصد ہیں ۔ تمہارے خواب ہیں ۔ یہ کاٹن فیلڈز ہیں ۔یہ وائینریز ہیں۔ یہ وائیلڈ ویسٹ ہے۔ یہ گولڈ رش ہے۔ یہ نئی آبادکاریاں ہیں۔ یہ کم محصولات اور زیادہ منافع ہیں۔ یہ کوئلے کی کانیں ہیں اور ہیرے جواہرات ہیں اورریل روڈزہیں۔ یہ کسینوز ہیں۔ یہ باندیاں ہیں۔ یہ نئی نوکریاں ہیں۔ یہ سائینسی ترقی ہے ۔ یہ کارخانے ہیں۔ یہ پروڈکشن لائنز ہیں۔ یہ میگا سٹورز ہیں۔ یہ بڑے جہاز ہیں۔ یہ نئے ہتھیار ہیں ۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر ہے ۔ بٹ موسٹلی یہ دو وقت کی روٹی ہے۔ سر کی چھت اور تن کا کپڑا ہے۔ یہ نئے برانڈز ہیں ۔ یہ انشورنس پالیسیز ہیں۔ یہ فاسٹ فوڈ ہے۔ یہ بیوٹی انڈسٹری ہے۔ یہ کام کے چالیس گھنٹے ہیں۔ یہ اوور ٹائمز ہیں۔ یہ پب اور نائیٹ کلب ہیں۔ یہ ہیپی آور ہے۔ یہ ویک اینڈ ہے۔ اپنا فرقہ اپنا چرچ ہے اپنا مصلّہ ہے۔
یہ سب تو زندگی اور آزادی میں شامل ہے۔ تو پھر یہ پرسیوٹ آف ہیپینیس کا ڈیزائینر فقرہ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟
ہاں ہم یہ بھی کہ سکتے تھے کہ تمہاری آزادی اور تمہارے خواب۔ لیکن خوشی ایک بیٹر ساؤنڈنگ لفظ ہے۔خوشی سے انسان کا فطری ناتہ ہے۔ مکمل خوشی ناقابل حصول ہے ۔ ٹرک کی بتی ہے۔ لوگوں کو مصروف کرنے کے لیے اس سے بہتر لفظ نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر انسان اپنا مقصد خوشی کو بنا لے تو وہ کبھی نہیں تھکے گا۔
لیکن وہ کبھی مطمعّن بھی تو نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے وہ زیادہ ناخوش ہو جائے۔
وہ جتنا ناخوش ہوگا اتنی ہی تندہی سے خوشی تلاش کرے گا۔ وہ اتنا ہی موٹیویٹڈ رہے گا۔
اگر میں دوسو سال اور زندہ رہتا تو میں تمہیں بتا سکتا تھا کہ ایک لمحہ آتا ہے جب آزادی اور زندگی میں ٹھن جاتی ہے۔بے لگام آزادی خود زندگی ہی کو کھا جاتی ہے۔ اور یہ کہ ناخوشی بھی ایک جگہ پہنچ کر موٹیویشن کی بجائے ڈپریشن میں بدل جاتی ہے۔ اور یہ کہ میں نے تمہاری لسٹ میں وال سٹریٹ اور ڈوٹ کوم ببل کا اضافہ کر دیا ہے۔اور میڈیسن انڈسٹری کا جو تھکے ہوئے ناخوش لوگوں کو خوشی، نیند ۔ آرام اور سکون بیچ کر دو وقت کی روٹی کمانے پر اکساتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو خوشی کے علاوہ اب اور کچھ بھی نہیں چاہیے۔ نہ مقصد ۔ نہ خواب۔ نہ آزادی۔ زندگی بھی نہیں۔
۔۔
خوشی کے تعاقب کا وبائی مرض ۔جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں