22 جون 2010

ناپرساں


اس بولتے شہر میں میرا غم کون کب سنے

میرے شہر کے سارے لوگ، 

خود اپنے ارادوں کی نا قدری کی داستانیں بیان کرتے 

اس زمانے کی آگہی کے جرم سناتے

لوگوں کی جہالت کے غم مناتے ، بولتے مسکراتے جا رہے ہیں

سبھی کو اپنا غم سنانا ہے ابھی

راستوں میں ٹھوکریں کھاتے قدموں کے زخموں کے قصے

حکایت زندگی رقم کرتے خونچکاں ہاتھوں کی داستانیں

میرا غم کون کب سنے؟؟


__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان


11 جون 2010

سچ ادھورا ہے ابھی

ابتدائی طور پر یہ دیباچہ میں نے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے وقت لکھا تھا۔ ایپل بک پر موجود نئی ای بک میں یہ تحریر شامل نہیں ہے۔ اس لیے اسے یہاں بلاگ پر شائع کیا ہے۔

 پیش نظم ۔سچ ادھورا ہے ابھی 

یہ میرا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ دوسرا قدم۔ جستجوئے آرزو میں کبھی تو ایک ہی جست میں قصہ تمام ہو جاتا ہے لیکن کبھی انتظار کی، پہچان کی، کوششِ پیہم میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ دوسرا قدم رکھنے کی جگہ ہی نہیں ملتی۔ خیالوں کا قریہ قریہ جھانک لیا جاتا ہے، جذبوں کے سمندر کے سمندر پار ہو جاتے ہیں، لفظوں کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، پھر وقت کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے، دوسرا قدم رکھنے کی جگہ ہی نہیں ملتی۔ ناتمام افسانہ کوئی موڑ دے کر تہ کردیا جاتا ہے۔ میرے ساتھ لیکن نہ پہلا معاملہ ہے نہ دوسرا۔ بلکہ ایک ایسی صورت ہے جہاں ہر اٹھتا قدم ارتقاء کی اک کڑی بن جاتا ہے۔ درجہ بدرجہ مقصود حقیقی کی طرف لے جاتا ہے۔