13 دسمبر 2023

پرانی کہانی

آج کچھ بھی نیا نہیں ہے
گو میں نے خود لکھی ہے یہ کہانی 
لیکن بیانیہ میرا نہیں ہے

یہ منادی میری نہیں ہے
جو داستاں کو ایک حسیں شہر کہ رہی ہے 
جو کہ رہی ہے آؤ مشروب محبت پیو اور بہکو۔ 
ٹہرتے قدموں سے ہم 
آنسووں کے نمکیں جرعے تھام لیتے ہیں 
مدہوش ہونے لگتے ہیں 
یہ کن خوابوں کی وادیاں ہیں 
یہ جھنکاریں اس دنیا کی تو نہیں ہیں 
برستے آنسوؤں میں یوں تو نہ دکھتا ہے نہ سنتا 
محبت کے بارے میں بھی یہی پڑھا ہے 
کیا آنسو اور محبت ایک ہی شے ہے؟ 

جب کوئی مسکراہٹ کسی ملال کے ملبے تلے دبی 
سسکیوں کو ریسکیو کرتی ہے تو گویا 
بہت دیر سے رکی ہوئی ایک سانس کو 
پھر سے سر اٹھانے کی آزادی مل جاتی ہے 
اس کے بندھے پر کھلنے لگتے ہیں 
لیکن اگر کوئی پناہ گزیں بچہ پوچھے  کیا تمہیں بھی پرندے پسند ہیں 
تو میری طرح خوف سے سانس مت روک لینا 
ضروری نہیں ہر سوال کسی مردہ پرندے کی کہانی ہی ہو 
اورکچھ کتابوں میں ہیونگ اے بلاسٹ کا مفہوم 
زندگی سے لطف اندوز ہونا بھی ہوتا ہے 
کچی عمر میں نئے مفاہیم یاد کرنا۔ 
پرندوں کی بولی سمجھنا۔ آسمان میں اڑنا آسان بھی ہے 
آنسووں اور سانسوں کو گننے 
خوابوں میں بھٹکنے اور محبت کرنے سے کہیں آسان 

لیکن کیا آنسو اور محبت۔ پرندے اور سانس ایک ہی شے نہیں ہیں؟




کوئی تبصرے نہیں: