28 دسمبر 2023

آپکا ووٹ۔ آپکی مرضی

دو ہزار چوبیس کو الیکشن کا عالمی سال قرار دیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی آبادی کا انچاس فیصد حصہ ان انتخابات کا حصہ ہوگا۔ پاکستان، امیریکہ اور یورپی یونین کے علاوہ باسٹھ دوسرے ممالک جمہوریت کی کسی نہ کسی شکل کی اقامت میں مصروف ہونگے۔ اور اس دوران لوگ سیاسی دھاندلیوں،حادثاتی اموات، محلاتی سازشوں، بدیسی ہاتھوں اور انتخابی جمہوریت کی دیگر بدصورتیوں کو سہتے ایک طویل سال کے اختتام پر سوچ رہے ہوں گے کہ انہیں انسانی معاشرے کی تنظیم کا کوئی بہتر طریقہ اب تک کیوں میسر نہیں آیا۔ 


پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ حکمران چنیدہ انسان ہوتے ہیں۔ اور ان سے کسی قسم کی باز پرس کا حق یا تو سپریم کورٹ کو ہے یا پھر سپریم سپریم کورٹ کو۔ اور سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ایڈجسٹ ایبل ہوتے ہیں۔ کبھی حکمران چوری کرتا پایا جاتا ہے اور کبھی اسی حکمران کو پچیس کڑور عوام کی باگ دوڑ (نکیل؟) تھما دی جاتی ہے۔ 


جہاں دنیا بھر میں لوگ اپنے ہونے والے نمائیندوں سے آئیندہ کی حکومتی پالیسی اور عالمی کردار کے بارے میں سوال جواب کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم لوگ جلسوں کے کھانوں اور گانوں سے لطف اندوز ہوتے  ہوئے پھولوں کے ہاروں کا انتظام کررہے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں نہ تو نمائیندوں کو اپنی اہلیت ثابت کرنے کے غیر ضروری تکلفات میں ڈالا جاتا۔ نہ ہی ووٹر کو ووٹ ڈالنے کی تکلیف دی جاتی ہے۔ ووٹ کو اس سے زیادہ عزت اور تکریم دینے کا دنیا میں کہیں اور تصور نہیں کیا جاسکتا۔ 


ویسے تو سب ہی کو معلوم ہوتا ہے کون جیتے گا۔ انتخابی نشان بھی اضافی ہوتا ہے۔ بس دنیا دکھاوے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ ایک اچھے شو کو کم از کم پاسنگ مارکس تو ملنے چاہیے تھے لیکن الیکشن فئیر اینڈ فری انڈیکس ۲۰۲۲ پر پاکستان کا سکور  ایک میں سے صفر اعشاریہ تین ہے۔ (آورورلڈان ڈیٹا)۔ ذاتی طور پر پاکستانی عوام کو الیکشن سے اتنی دل چسپی نہیں ہے جتنی اس کی ایک چھٹی سے ہے۔ لیکن پورے جمہوری تماشے میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ عوام کا تفریح کا ذوق اتنا کیسے گر گیا۔ یا پھر یہ کہ وہ اپنی بہبود سے اتنے لاتعلق کیوں ہیں؟


کیا فکری طور پر ایک بالغ پاکستانی کو اپنے نمائیندگی کرنے والے انسان کی ذہنی اور عقلی صلاحیتوں کے بارے میں کوئی تجسس نہیں ہے؟ منطق کی رو سے ایک غیر متجسس دماغ ہی کسی اور کے دماغ کے  سے بالکل لاتعلق ہو سکتا ہے۔  اور بظاہر اس کی وجہ فکری انحطاط ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق انسان کی اپنی عقلی اور سماجی نااہلی کی حقیقت سے ناواقفیت کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ وہ نہ صرف صحیح اہلیت کے سٹینڈرڈ سے ناواقف ہوتے ہیں بلکہ اپنی کارکردگی کے جائزہ کے جج بھی خود ہی ہوتے ہیں۔ اپنے پیمانے کی خامیوں سے ناآگہی کی وجہ سے انہیں اپنی خامیوں بھی اپنی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں۔ 


خود کو دیا گیا غلط فیڈ بیک چیزوں کو مزید بگاڑ کی طرف لے جاتا ہے۔ تحقیق میں اس کی ایک مثال یوں دی گئی ہے کہ اگر ایک برے ریڈر کو اس کی غلطیوں کا علم نہ ہو تو وہ خود کو ایک اچھے ریڈر جتنے گریڈ دے گا۔ لیکن اگر اسے پڑھنے سے پہلے صحیح الفاظ سے آگاہ کر دیا جائے تو اس کا اپنی کارکردگی کے بارے میں تخمینہ حقیقت کے قریب ہوجاتا ہے اور اس میں غلطیوں کی تصیح کا شعور بھی پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہیں انسان کے لیے اپنے حال میں مست رہنا مشکل ہونے لگتا ہے۔


جمہوریت کے عالمی مقابلے میں شرکت کرنے کے لیے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ ہر پاکستانی کو ایک ووٹ کا حق حاصل ہو حلانکہ معاشرے میں اب تک اس بات کو یقینی نہیں بنایا نہیں جاسکا کہ ہر پاکستانی کو ایک انسان ہونے کا حق حاصل ہو جائے۔ اسے زندگی جینے اور شخصی شعور بڑھانے کے ایک سے مواقع حاصل ہوں۔  یوں بھی ناوا قفیت اور نااہلیت صرف گھڑی چوروں کے لیے مختص نہیں ہوتی۔  گھر گھر کی ایک ہی کہانی ہے۔ اور آج تک پاکستانی انتخابی امیدوار کی اہلیت کا پشتینی دولت کے علاوہ کوئی مستقل معیار متعین نہیں کیا گیا۔متفقہ عوامی رائے ہے کہ جس کے گھر دانے ۔ اس کے کملے وی سیانے۔ اور  ووٹر سمجھتا ہے کہ امیدوار قدرتی طور سیانا ہے خواہ ظاہری آثار کچھ بھی بتائیں۔


لیکن وہ یقینا کسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو اپنے پسندیدہ نمائیندوں کو دنیا کے کسی بھی ووٹر گروپ کے سامنے کھڑا کر کے دیکھ لیں۔ ارے بھئی اصل میں نہیں۔ یہ صرف خیالی مشق ہے۔  انہیں رٹے ہوئے جوابوں کی بجائے عوامی رائے عامہ کے ان عام سے عالمی سوالوں کے مقابل کریں۔ شائد وہ کچھ سٹ پٹا جائیں۔ کئیوں کو تو سوال ہی سمجھ نہیں آئیں گے۔ اب یقینا آپ کا دل دکھے گا۔ کسی پر اتنا ہی بوجھ ڈالنا چاہیے جتنا وہ برداشت کرسکے۔ تو کیا ان پر کڑوڑوں لوگوں کی سیاسی سماجی بہبود کی ذمہ داری کا بوجھ ڈالا جاسکتا ہے؟


اور عوام کو سوال کرنا کب سکھائیں گے ہم؟ یا انہیں ایسے ہی صبر اور حوصلے سے ہر نکھٹو حکمران کو برداشت کرنے کی تعلیم دیتے رہیں گے تاکہ جمہوری روایات کی پاسداری کی جاسکے ۔کیونکہ پریکٹس ہمیں پرفیکٹ بناتی ہے۔۔ نہیں دراصل پریکٹس پرمننٹ بناتی ہے۔ ایک ہی غلطی کو بار بار دھرانے سے وہ اور پکی ہوجاتی ہے اور ڈھٹائی بن جاتی ہے۔ یہ وہی ڈھٹائی ہے جس سے بار بار نااہل کئے گئے لوگ دھڑا دھڑ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کر رہے ہیں اور آپکے چہیتے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔


دو طرفہ فکری انحطاط کے عواقب اور نتائج سے آگہی رکھنے والے احباب شعور عموما انکویزیشن کی موجودگی کے پیش نظر حق کے حق میں کھڑے ہونے سے کترا جاتے ہیں۔ لیکن الیکشن کے اس عالمی سال میں دنیا بھر کا سیاسی منظر نامہ دوبارہ سے ترتیب پانے کو ہے۔ کئی رجیم چینج آپریشن ہونے ہیں۔ کئی مایوس کن نتائج اور عدم استحکامیوں اور متشدد معاشروں کی تخلیق ہونی ہے۔ الیکشن کے بعد کی دنیا کے مختلف خاکے ہر ملک کے دانشوروں کی میزوں پر کھلے پڑے ہونگے۔ ایک پاکستانی کو کم از کم اپنے حلقے کے نمائیندہ کے بارے میں بات کرنے جتنی تعلیم تو ملنی چاہیے۔ اجازت خواہ ملے نہ ملے۔

شائد اب وقت آگیا ہے کہ ان غیر حقیقی لوگوں کو انسان بنا کر دکھانا بند کر دیا جائے۔ ان کی فرضی خاندانی یا نسلی و ذاتی برتری کا تاثر زائل کرنے کے لیے ان کی نادیدہ خوبیوں کو ہائی لائیٹ کرنا بند کرنا ہوگا۔ ان کے رٹے ہوئے ایک صحیح فقرے کی بنیاد پر انہیں نالائق کی بجائے سمجھدارکہنا۔ انہیں نااہل کی بجائے مقبول دکھانا۔جمہوری اصولوں کی نہیں بلکہ جھوٹ کی پاسداری ہے۔ ٹھیک ہے ہم ابھی جمہوریت جمہوریت کھیلنا چاہتے ہیں لیکن جمہوری نمائیندگی کے لیے اسلامی نہیں تو کم از کم انسانی معاشرے کے شان شایاں کوئی کوالیفائر ضرور ترتیب دے لیں۔ نا جاننے والے کوصحیح اور غلط کے درمیان فرق سکھانا جاننے والے کی سماجی۔ مذہبی اور اخلاقی نہیں تو انسانی ذمہ داری ضرور ہے۔ ویسے آپ۔۔ ایک انسان کے طور پر ان میں سے تو کسی کو ووٹ نہیں دیں گے ۔ رائٹ؟



کوئی تبصرے نہیں: