چلو الوداع کہتے ہیں دسمبر کو
تمنا سے تہی اونگھتے دنوں کو
آؤ اپنے اپنے بچھڑے ہوؤں کی یادوں کو
جلتی کشتیوں پر رکھ کر سمندر میں بہاتے ہیں
آؤ خواہشوں کی تربت پر اگتی نئی کونپلوں کو
آنسوؤں سے آبیار کرتے ہیں
خوابوں کی خاک سے چہرہ پونچھو۔ پھر سجدہ شوق میں
سر رکھتے ہیں کچھ دیر تک۔ مانگتے ہیں آرزو کی زندگی کی دعا
خاموش دریچوں اور دروں پر بے اعتنائی کی کاہی جم چلی ہے
پرانے راستے پر مکڑیوں کے دھاگوں کی
نازک کڑھائیاں پھیلی ہوئی ہیں
اور میں لفظوں کے ریشم میں الجھ چکی ہوں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں