وولنگ پہاڑی سلسلے کی بلند ترین چوٹی فانجنگ شان جو نیو گولڈن سمٹ بھی کہلاتی ہےسطح سمندر سے تئیس ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اچھے موسم آنے والے اکثر سیاح اتفاق کرتے ہیں کہ دنیا میں اس سے بہتر نظارہ نہیں ہے۔ چوٹی تک پہنچنے کا راستہ تین چار حصوں پر مشتمل ہے جن میں ابتدائی حصہ بس کے ذریعے طے ہوتا ہے اور اس کے بعد کیبل کار یا پیدل ٹریلز ہیں۔ جو عرف عام میں مشہور مشروم چٹان تک لے جاتی ہیں۔ یہ قدرتی طور پر بنی غیر معمولی چٹانی اشکال ہیں جو صدیوں سے اسی ہئیت میں ایستادہ ہیں۔
فانجنگ پہاڑ کےساتھ ساتھ منگ دور کی بیسیوں خانقاہوں کو ان کے کھنڈرات یا زوال پذیر وجود سے دوبارہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح نیو گولڈن سمٹ کی جڑواں چوٹیوں پر دو بدھ خانقاہوں کو بھی مسلسل مرمت کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس کے نئے طرز تعمیر میں بھی اس پرانی تہذیبی جھلک موجود ہے جب منگ یونگل دور میں انہیں پہلی بار تعمیر کیا گیا تھا ۔ سمٹ کی جڑواں چوٹیوں پر موجود دو ٹیمپلز کے درمیان ایک محرابی پل ہے ۔ قدیم داستانیں میں پہلی ٹیمپل حال اور دوسری مستقبل کے ساتھ منسوب ہے ۔ یعنی حال کی نمائیندگی کرتی ساکیمونی اور مستقبل کی نمائیندگی کرنے والی میتریہ ۔ لیکن اس پل پر پیر رکھتے ہیں پہلا آشرم گزرا ہوا وقت بن جاتا ہے اور دوسرا آنے والا وقت۔ زائر کا پیر ان کو ملانے والے موجود لمحے پر پڑ چکا ہے۔ لمحہ بھر کو تم ٹھٹک جاتے ہو گویا تم دو انتہاوں کے درمیان اپنی بے مائیکی سمیت معلق ہو۔ اس ایک موجودہ ساعت کے ہونے یا نہ ہونے سے تمہاری تمام حقیقت وابستہ ہے۔
اپنی منفرد خوبصورتی اور یونیسکو کے قیمتی فطری ورثہ میں شمار ہونے کی وجہ سے یہاں سیاحوں کا غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے۔ لیکن مناظر اور ماحول کے تحفظ کے لیے سیاحوں کی رہائش کے انتظامات۔ ہوٹل وغیرہ قدرے فاصلے پر ہیں اور روزانہ آٹھ سے دس ہزار سیاحوں ہی کو ٹکٹ ایشو کیا جاتا ہے۔ ویسے جن تصاویر کو دیکھ کر یہ لوگ یہاں آتے ہیں اس کے لیے ایک بہت شفاف دن کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے تمہیں شائد کئی دن یہاں رکنا پڑے۔ تاکہ تم ایسے دن کا انتخاب کر سکو جب تم مارکیٹنگ ڈرون سے بنائی گئے اشتہارات جیسی تصاویر بنا سکو۔
پھر بھی کم وقت کے لیے آنے والے اکثر سیاحوں کو شکایت ہوتی ہے کہ انہیں ایک دھندلے چاروں طرف بادلوں سے لدے اور لوگوں سے بھرے پہاڑ کے علاوہ کچھ زیادہ دکھائی نہیں دیا۔ ہاں وہ ایک ہجوم کے ساتھ نو ہزار سیڑھیاں چڑھنے سے کچھ پرجوش بھی محسوس کرتے ہیں کیونکہ کئی جگہ پر پتھروں سے بنی یہ سیڑھیاں ایک تنگ اور دشوار چڑھائی بن جاتی ہیں۔ جو کسی بھی یاترا کی تکمیل سے وابستہ اطمینان قلب سے منسلک کیا جاتا ہے۔
سیاح یوں تو آس پاس کے وسیع نظارے کی بجائے اس چٹانی کالم کی بلندی کے طلسم میں یہاں تک آتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو مقدس بدھ خانقاہ کی زیارت کی مذہبی چاہ نہیں بلکہ فطرت کی دلفریبی کی کشش کھینچ کر یہاں لاتی ہے۔ اسی لیے سفر کی تمام صعوبت کے بعد متوقع نظارے کی غیر موجودگی انہیں زیادتی یا شائد دھوکہ دہی لگتی ہے۔ سو اگر تم کچھ دن رکو تو شائد تمہیں کوئی انتہائی خوبصرت طلوع ہوتی صبح یا یادگار شام نظر آئے جب تمہیں لگے کہ فطرت پورے کھلے بازووں سے تمہیں اپنی طرف بلا رہی ہے۔
یا کوئی ایسا دن جو تمہیں وادی اور پہاڑی سلسلے کو مکمل اور مسلسل دیکھنے دے۔ تب تم سوچو گے کاش تم ایک مسافر کی بجائے ایک شاعر ہوتے تو وہاں کے ایک ایک منظر پر ایک دبستان لکھتے۔ ایک مسافر اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے کہ ایسا نظارہ جب تمہیں اتنی کشادہ دلی سے بلائے تو تم اپنی ہستی بھول جاؤ۔ اپنی روح اس پر وار دو۔ اس میں بھی مسافر کی کیا خطا ہے کہ ہر سفر سے واپسی پر وہ اپنی ذات کا ایک حصہ وہیں بھول آتا ہے اور منظر کا ایک حصہ ساتھ اٹھا لاتا ہے۔ یا آنکھوں میں سموئی دیومالائی تصویریں خاموشی سے تنہائی میں برسوں پوجتا رہتا ہے۔
مگر بدھ یاترا ہو یا فطرت۔ ہم ایسی جگہوں پر جانا چاہتے ہیں جو ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے وجودوں سے نکلنے پر مجبور کرے۔ اور ایک بڑی اور مہیب قوت سے وابستہ کردے۔ پھر یہ درد اور شکایات ہمیں ہماری ذات سے آگے سوچ پانے میں روکاوٹ ڈالتے ہیں۔ منظر کی روح سے ملنے کے لیے شکوہ ترک کرکے پرسکون ہونا پڑتا ہے۔ اور ان پہاڑوں کو تو منگ خانقاہ کی تعمیر سے صدیوں پہلے سے بدھ سکون سے منسوب سمجھا جاتا ہے۔ اور اس بلندی پر یہ نظارہ صدیوں سے یونہی بادلوں اور دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ مان لو کہ ازل سے یہاں کھڑے ہونے کا مقصدمحض اپنے تمام تحفظات سے جدا ہوکر آفاقی سکون سے رابطہ قائم کرنا تھا۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔
تمہیں کیا لگتا ہے جب ان عجیب تجریدی چٹانوں کے نقوش فطرت کے ہاتھوں پروان چڑھے تھے تو اسے پہلے سے معلوم تھا کہ وہ ہمیں کیا سمجھانا چاہتی ہے ۔کیا وہ ہمیشہ سے ہمارے دلوں میں ثبت کرنا چاہتی تھی کہ حسن کی تنہائی کیا ہے یا جذب کی ریاضت اور تقدس کی تکریم کیا ہے۔۔ یا پھر وہ پہلا شخص جو نوے ہزار قدمچوں پر چڑھ کر یہاں پہنچا تھا جس نے پہلی مرتبہ اس صعوبت کو مسخر کیا۔ پھر خود کو اس بے رنگ وسعت کے سامنے سرنگوں کردیا۔ اُس کی دلگدازی نے اس منظر کو مکرم کر دیا اور اُس کی لگن نے اس پہاڑ کو مقدس بنا دیا؟؟
۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں