21 دسمبر 2023

بڑا بدمعاش

دوہزارچودہ میں امیریکہ میں سی ڈی سی اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے پہلی مرتبہ بلی انگ کو سرکاری طور پر ایسے ڈیفائن کیا تھا:
bullying
 ایک ایسا جارحانہ رویہ۔ جس میں طاقت کا عدم توازن واضح طور پر پایا جائے۔ اسے مخالف کو نقصان پہنچانے کی نیت سے مسلسل دوہرایا جائے۔ یہ جسمانی، نفسیاتی، سماجی، اور تعلیمی نقصان پر مشتمل ہو سکتا ہے ۔ سی ڈی سی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بارہ سے اٹھارہ سال کے درمیان بیس فیصد طالب علم اس کا شکار ہیں۔

بلی۔انگ (اس کو ہم یہاں بدمعاشی اور غنڈہ گردی کہیں گے) کا شکار ہونے والے نوجوان جسمانی سماجی اور جذباتی تکالیف کا سامنا کرتے ہیں جس کا نتیجہ ڈپریشن، اضطراب، بے خوابی۔ تعلیمی ناکامیوں سیلف ہارم یا اموات کی صورت میں نکل رہا ہے۔ (رپورٹ: سکول سیفٹی اینڈ کرائم۔ این سی ای ایسس)۔

تحقیق کے مطابق بیشتر بُلی متاثرین سے قوت میں زیادہ، معاشی طور پر برتر اور بہتر سماجی رسوخ کے مالک ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں یہ صورتحال اور زیادہ خراب ہے۔ یونیسکو کے شمار کے مطابق دنیا کے قریبا ایک تہائی نوجوان اس کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تعداد رینج میں سات فیصد (تاجکستان)سے چوہتر فیصد(ساموا) تک ہے(رپورٹ ۔ یونیسکو۔ ایس ڈٰ جی فور ڈیٹا آن بُلی،انگ) ۔

بچوں کا یہ حال ہے تو بڑوں کا کیا حال ہوگا۔ آخر گھروں سے ہی سیکھ کر ہم آتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق زیادہ تر بدمعاش اس رویے کا مظاہرہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ خود کہیں نہ کہیں ان حالات سے گزرے ہوتے ہیں ۔ ماضی کے حادثات کے شکار ان لوگوں کو اپنے مسائل سے نپٹنے کے بہتر طریقے معلوم ہی نہیں ہوتے۔ تو ایسے میں ان سے جھگڑا مول لینا بے وقوفی ہے۔۔

اس غنڈہ گردی کے متاثرین کے لیے اس صورتحال سے بچنے اور مسئلہ کے حل کے لیے گوگل سرچ میں بیشتر تجاویز ایک سی تھیں جیسے:۔ اگنور کریں۔ بدمعاش کو کہیں بس کرو۔ مذاق میں اڑادیں۔ ان سے سامنے سے گریز کریں۔ دوستوں کے ساتھ باہر نکلیں۔ بھاگنے کا طریقہ سیکھیں۔ کسی بڑے کو بُلی کے بارے میں بتائیں۔ بہرحال اگر بلی ساتھ والے گھر میں رہتا ہو تو ہم کچھ بہتر تجاویز جاننا چاہیں گے ۔ ایک سرچ میں سامنے آیا کہ: ۔ جواب میں دیر نہ کریں ۔ غصہ میں نہ آئیں۔ ٹھنڈے دماغ سے بُلی کو غیر مسلح و نہتا کریں۔ غیر جذباتی اور مضبوط لہجے کا استعمال کریں۔ ان کے نام سامنے لائیں۔ اب آپ کہیں گے ہم نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا۔ نتیجہ یو این کی ناکام ریزولیوشن اور احتجاجی ریلیوں کے سوا کچھ بھی نہیں نکلا۔

تحقیقات کے مطابق فوری طور پر دھونس باز بدمعاش کو کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے ہر کوئی اب بائی سٹینڈر کا مورل سٹینڈرڈ بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ پہلے تو وہ یوں ہی کھڑے دیکھا کرتے تھے لیکن اب انہیں ٹریننگ دی جاتی ہے کہ آپ معاملہ فہمی سے کام ضرور لیں لیکن آپ چپ نہ رہیں۔۔ الجھے بغیر صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیں اور اگر ممکن ہو تو صلح صفائی سے ثالثی کرا دیں اور اگر ایسا کچھ ممکن نہ ہو تو پھنسے ہوئے بندے کو وہاں سے ہٹا دیں ۔ کہیں اور بچا لے جائیں۔

یوں تو یہ جاننے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب نہ جاننے والے صحیح غلظ کی تمیز بھولنے لگیں تو وہ سچ کی مسلسل یاد دہانی کرائیں۔ پھر اگر وہ اپنے کام پر سمجھوتے شروع کردیں۔ غیر ضروری بحث میں پڑ جائیں ۔ سچ کو سمجھنے کے باوجود حقیقت کے دو متضاد ورزن دیں اور اسے حالات کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے کھاتے میں ڈالتے جائیں تو عام آدمی کو ظلم سہنے اور خاموش رہنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ کوئی بھی طاقتور بُلی جب چاہے انسانی جانوں اور انسانی حقوق کو ہڑپ سکتا ہے۔ پھر وہ پولیس مقابلہ ہو یا وار کرائم کیا فرق پڑتا ہے۔ 

یہاں آکر ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں لیکن آخر جھگڑے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے۔ کیا ہم اس جنگ کا حصہ بھی ہیں یا نہیں۔ کیا یہ ہمارے اندر کی جنگ ہے یا باہر کی۔ اصل میں وہ لوگ جو بندروں سے انسان میں تبدیل ہوئے ہیں( بلکہ باقی بھی جو انسان ہی پیدا ہوئے تھے) ان کے ڈی این اے میں جھگڑوں کی بنیاد موجود ہے۔ کچھ کی دشمنی ایسی تھی۔ کچھ کو سروائیول آف فٹسٹ کے لیے اس کی ضرورت تھی ۔ ویسے بھی خوراک کے حصول۔ زمین کے قبضے اور عقائد فیصل کرنے کے لیے جنگ و جدل ہمیشہ سے مرووں کا شیوہ اور شان رہا ہے۔ انہیں لڑنا پڑتا ہے کیونکہ دوسرا ان سے لڑ رہا ہوتا ہے۔

پھر کبھی ایک جگہ پر غنڈہ گردی کا شکار ہونے والے دوسری جگہ پر دھونس دینے پر اتر آتے ہیں۔ گویا ہم سبھی چھوٹے بڑے غنڈے ہیں۔ کیونکہ ہم سب میں ظلم کرنے اور ظالم کا ساتھ دینے کی صلاحیت ہمیشہ سے موجود ہے۔ کبھی نادانستگی میں۔ کبھی نادانی میں۔ اور کبھی خوف کے تحت ہم مظلوم کی مدد کرتے کرتے ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے لگتے ہیں۔ اور بیشتر تو ہم بائی سٹینڈر ہی ہوتے ہیں۔ سامنے کھڑے ان کو ٹکڑوں میں بدلتے جلتے دیکھتے رہتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کرتے۔

امیریکہ میں غزہ کے مقتولین کا خاموش مقدمہ لڑنے کے لیے ایک احتجاجی ریلی میں کھڑے لوگ یقینا جانتے ہوں گے کہ امیریکہ خود بھی انہی حرکات کا مرتکب ہوتا رہا ہے۔ عراق اور افغانستان سے بھی پہلے ویتنام میں یہی فاسفورس بم سویلین آبادی پر ایسے ہی برسائے جا چکے ہیں۔ ایک سپاہی کی گفتگو کے مطابق “ ہم ڈاؤ میں ان بیک روم لڑکوں سے واقعی خوش ہیں۔ اصل پروڈکٹ اتنی گرم نہیں تھی — اگر جلدی کرتے تو وہ اسے کھرچ پھینک سکتے تھے۔ تو لڑکوں نے پولی اسٹیرین شامل کرنا شروع کر دیا — اب یہ کمبل سے گندگی کی طرح چپک جایا کرتا۔ لیکن پھر اگر گوکس پانی میں چھلانگ لگاتے تو جلنا بند ہوجاتا، لہذا انہوں نے اس میں اور بہتر طور پر جلانے کے لیے سفید فاسفورس شامل کرنا شروع کیا۔ یہ اب پانی میں بھی جلتا جاتا۔ اور اسکا صرف ایک قطرہ کافی تھا، یہ ہڈیوں تک جلاتا جائے گا تاآنکہ وہ فاسفورس کے زہر سے مر جائیں۔

a soldier in a conversation with photojournalist Philip Jones Griffiths 


ڈاؤ نے اس وقت نیپام بم کی پروڈکشن کا کنٹریکٹ جیتا تھا جو اب نئی پیکنگ میں غزہ میں برس رہا ہے۔ ویسے اکثر لوگ وال مارٹ اور میکڈونلڈز کے پیچھے ہیں حلانکہ دوسری طرف ڈیفینس انڈسٹری کے شئیر پانچ سے سات فیصد بڑھ گئے ہیں۔ پورٹ فولیو چیک کریں۔ اور جنگ سے بھی بڑی انڈسٹری تو بحالیات کی ہے۔ ویسے میں بدیسی کرپشن پر انگلیاں نہیں اٹھا رہی لیکن ویب پر سب موجود ہے۔ وہی نا غیر مارے گا بھی پھر دھوپ میں بھی ڈالے گا۔ بعد میں ٹینٹ تھوڑی لگا کر دے گا اپنوں کی طرح۔ 

اصل میں ہم اندر سے قائل ہو چکے ہیں کہ نہ صرف دنیا میں سے عدل اٹھ چکا ہے بلکہ اب ترازو کی اقامت غیر ضروری ہے۔ پر امن مظاہرین اصل میں ایک نعرہ ہوتے ہیں کہ ان کا وجود اب اور یہ ظلم برداشت نہیں کرے گا ۔ وہ اپنی تمام تر انسانی عظمت سمیت براہ راست اپنے جارح کے سامنے تن جاتے ہیں کہ اب کر لو جو تم کر سکتے ہو۔ اور فلسطین کی جنگ میں وہ سٹینڈ خود فلسطینی لے رہے ہیں۔ کیا باقی مجمع کسی طور اس نعرے کی ترجمانی کر رہا ہے؟ کیا وہ اپنی حکومتوں کی بے اعتنائی، دنیا کی عدم مساوات اور بے انصافی کو کوئی پیغام دے پارہا ہے؟ یا یہ صرف ایک خود ساختہ بے بسی کا اعلان ہے؟

سی این این نے احتجاجی ریلی میں ایک خاتون سے سوال کیا کہ وہ وہاں کیوں آئی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی دیرینہ حامی ہے اور مقبوضہ علاقوں کی صورتحال نہات دگردوں اور خراب ہے۔ اس نے کہا میں ستر سال کی ہوں اور میں اپنے پوتے پوتیوں کو بتانے کے قابل رہنا چاہتی ہوں کہ جب یہ نسل کشی ہوئی تو میں خاموش نہیں بیٹھی۔ وہ صحیح کہ رہی ہے۔ گو خاموشی بہت آسان ہوتی ہے۔ لیکن آخر میں آکر مظلوم کو اپنے دشمنوں کا ظلم نہیں بلکہ اپنے دوستوں کی خاموشی یاد رہ جاتی ہے۔ 

ہم جوگی لوگوں کے لیے یہ کچھ مشکل مسائل ہیں۔ ہم تو امتحان بھی پوری کتاب کی جؤبجائے خلاصہ پڑھ کر پاس کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ عربوں کا یا غزہ کا یا ویسٹ بینک کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ دنیا میں انصاف کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہے۔ یہ اقامت ظلم کا مسئلہ ہے۔ ویسے تو سالم انسانوں کو ہضم کرنے کے ایسے واقعات تاریخ میں کم ہی ملیں گے۔ کچھ لوگ اسے جینوسائیڈ۔نسل کشی کہ رہے ہیں۔ ضرور کہیں اور پھر اس سپیشی کو ڈیفائن کریں جو اتنی دیدہ دلیری سے انسانی نسل کشی کی مرتکب ہو رہی ہے۔

اچھا میں نے ویسے ایکشن موویز سے ایک سبق سیکھا ہے جب کوئی بدمعاش زیادہ قابو سے باہر ہونے لگتا ہے اور مظلوم کو کوئی راستہ سمجھ نہیں آتا تو بہت مجبوری میں بھی وہ ۔کبھی بھی۔ غنڈے کے بڑے بھائی کے پاس نہیں جاتا۔ مخالف سائیڈ کے بڑے بدمعاش کے ہاتھ گروی ہوجاتا ہے۔ ہمارا کوئی پلان ہے ایسا؟



کوئی تبصرے نہیں: