میں گم شدہ ہوں اپنے شہر میں جو کہ سوچیں ہیں
تم روز مجھے گلی کوچوں سے ڈھونڈ لاتے ہو
نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر ساتھ بٹھا کر کھانا کھلا کر
مجھے بتانے کی سرتوڑ کوشش کر تے ہو
کہ یوں شائد مجھ کو جینا آجائے
لیکن تمہارا رخ پلٹتے ہی میں فرار ہو کر
زندگی سے بے نیاز
خیال کی گرد آلود شاہراہ پر
خاک اوڑھے نکل آتی ہوں
ہوا کے دوش پر اڑتے پرانے میل خوردہ شاپر کی طرح بے کار
پھر سے گم شدہ ۔ آنکھ اوجھل
شائد کوئی حیران ہو کہ میں کیسے ایک ہی انداز میں
گھنٹوں سے بیٹھی ہوئی ہوں
کیا گوتم کے ساتھ یہی ہوا تھا؟
سوچتے سوچتے اس کے سر کا حجم اس قدر بڑھ گیا
مکمل سكوت سے وہ مجسمے میں ڈھل گیا
جب اس کے آس پاس پھول پودے اگنے لگے
تو لوگوں کو خبر ہوئی کہ اس کے تن میں پتھر ہی پتھر بھر چکے ہیں
اس کی بند ہوچکی آنکھوں کو
لوگ آج تک آشتی سمجھتے ہیں مگر
وہ ایک جنگ تھی جو بہت دور اندر کہیں
بہت دیر تک لڑی گئی تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں