17 نومبر 2023

گم شدہ

میں گم شدہ ہوں اپنے شہر میں جو کہ سوچیں ہیں
تم روز مجھے گلی کوچوں سے ڈھونڈ لاتے ہو 
نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر ساتھ بٹھا کر کھانا کھلا کر 
مجھے بتانے کی سرتوڑ کوشش کر تے ہو 
کہ پاگل پن اور زندگی میں کیا فرق ہے
کہ یوں شائد مجھ کو جینا آجائے 
لیکن تمہارا رخ پلٹتے ہی  میں فرار ہو کر 
زندگی سے بے نیاز 
خیال کی گرد آلود شاہراہ پر 
خاک اوڑھے نکل آتی ہوں 
ہوا کے دوش پر اڑتے پرانے میل خوردہ شاپر کی طرح بے کار 
پھر سے گم شدہ ۔ آنکھ اوجھل 

شائد کوئی حیران ہو کہ میں کیسے ایک ہی انداز میں 
گھنٹوں سے بیٹھی ہوئی ہوں
کیا گوتم کے ساتھ یہی ہوا تھا؟
سوچتے سوچتے اس کے سر کا حجم اس قدر بڑھ گیا
مکمل سكوت سے وہ مجسمے میں ڈھل گیا
جب اس کے آس پاس پھول پودے اگنے لگے 
تو لوگوں کو خبر ہوئی کہ اس کے تن میں پتھر ہی پتھر بھر چکے ہیں
اس کی بند ہوچکی آنکھوں کو
لوگ آج تک آشتی سمجھتے ہیں مگر
وہ ایک جنگ تھی جو بہت دور اندر کہیں
بہت دیر تک لڑی گئی تھی۔


کوئی تبصرے نہیں: