19 نومبر 2023

مشترکہ دشمن


مشہور مقولہ ہے کسی بھی گروہ کو منظم کرنے کے لیے مشترکہ دشمن سب سے زیادہ کارآمد ہے۔ ہمارے ہاں اسےعموما بیرونی ہاتھ کا نام دیا جاتا ہے۔ اصل میں نیشن سٹیٹس کے ساتھ مسئلہ یہی ہے اپنے اپنے کنوؤں کی عالیشانگی کے لیے ایک عدد بیرونی ہاتھ پیدا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ بیرونی ہاتھ کی غیر موجودگی میں ریاست کااتحاد پارہ پارہ ہونے لگتا ہے۔ لوگوں میں عمل کی ڈرائیو کم ہو جاتی ہے، ان کے حوصلے کمزور پڑنے لگتے ہیں اور ترجیحات بدلنے لگتی ہیں۔ وہ بیرونی ہاتھوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ایک وشیس سرکل ہے ۔،

ویسے جن ہاتھوں کی طرف ہم دیکھ رہے تھے وہ ہماری پست ہمتی اور بے حیثیتی سے تنگ آ کر کب کے ہاتھ جھاڑچکے اور اب ہم خون رنگے اندرونی ہاتھوں کو دستانے پہنا کر بیرونی ہاتھوں کا کردار  کروانے پر مصر ہیں۔اندورنی ہاتھ اوورٹائم کے نام پر ریٹ بڑھاتے جارہے ہیں۔ بہرحال ان کا ریٹ ابھی زیر بحث نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہ جب بھی میں کوئی آن لائن اخبار پرھتی ہوں تو نیل سے لے کر کاشغر بلکہ آس پاس بہت دور تک لہو پانی سا سستا ہوکربہتا نظر آتا ہے۔ یہ ویسے میں نے محاورہ بولا ہے۔ اب زیادہ تر سوختہ اعضا ہی ملتے ہیں۔ اور پھر پانی کتنا مہنگا ہو چکا ہے۔

پانی سے غزة میں پینے کے پانی کا کرائسس یاد آیا۔ جہاں امدادی ٹیموں کو بھی جانے کا موقع نہیں مل رہا۔
 اور ہیومن رائٹ واچ یاد آیا۔ کل کی ہیڈنگ ملاحظہ کریں۔

“اسرائیلی حکام کی جانب سے پانی کی کٹوتی غزہ میں صحت عامہ کے بحران کا باعث بن رہی ہے۔ناکہ بندی ختم کریں، پانی اور بجلی بحال کریں، ایندھن کی اجازت دیں۔”
اے قیوم احمد: خصوصی مشیر حقوق صحت
 مجھے اس ہیڈ لائن میں ازراہ کرم۔ پلیز  پلیز ۔براہ مہربانی جیسے لفظوں کمی شدید کھلی ہے۔ بات کرنے کا بھی کوئی طریقہ ہوتا ہے۔
 
ویسے اب کی بار  بچوں پر بمباری کے بعد سے ایک مشترکہ دشمن ابھر کر دوبارہ سامنے آگیا ہے۔ سب نے بہت کوشش کی کہ نظر ادھر ادھر کرکے مسئلے کو کارپٹ کے نیچے دبا دیا جائے لیکن اس دفعہ ایسا ہو نہیں پایا۔ اس سے پہلے ہی دنیا میں دوسرے لوگوں نے اس بارے میں بات شروع کردی اور پھر سبھی کو ایک عدد نظریہ کی حمایت کرنی پڑی۔حتی کہ انہیں بھی جنہوں نے تمام عمر کسی بھی نظریہ سے وابستگی ظاہر نہیں کی۔ کیونکہ ہر وابستگی جملہ ذمہ داریوں اور ان کے متعلقہ نتائج کے ساتھ ہی سامنے آتی ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ ہم باقی تمام چیزوں کے ساتھ نظریات کی دوڑ میں بھی باقی دنیا میں سب سے پیچھے ہیں۔ صرف پچھلے ڈیرھ ماہ کی فیس بک پوسٹس اوردعائیہ ٹویٹس ہی دیکھ لیں۔ میرا واٹس ایپ تو فلسطین کے حقوق کی جنگ کی وجہ سے بار بار کریش ہو جاتا ہے۔مجھے یقین ہے آپ سب بھی ہزاروں میسج فی گھنٹہ کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی کوشش میں ہلکان ہیں۔ لیکن مانناپڑے گا صرف ایک صہیونی سازش ہی اپنے مخالفین کو اپنے ہی پچھواڑے میں یوں لڑنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

لڑنے کی اجازت سے مجھے نہ جانے کیوں ڈزنی فارمولہ موویز یاد آگئیں۔ ابتدائی فارمولہ ہے کہ حالات کے بہتر ہونےتک صبر سے کام لو۔ تابوت میں یا قلعہ میں خوابیدہ رہ کر نجات دہندہ کا انٹظار کرو۔ پھر کچھ شائد ویمن رائٹ واچ یا پک۔سار موویز کے زیر اثر حق کے لیے آواز اٹھانا اہم ہو گیا۔ تاہم جنگ کی آؤٹ سورسنگ تو مارول والوں نے شروع کی تھی۔ اور دنیا کو آوٹ سورسنگ سے کوئی مسٰلہ بھی نہیں ہے جب تک یہ کولیٹرل کے بغیر ہو ۔۔

 دنیا تو حقیقت میں بھی یو این کو سارے اختیارات سونپ کر ایک طرف ہوجانا چاہتی تھی۔ اگر تھوڑے سے اضافی ٹیکس پر کرائے کےقاتل دستیاب ہیں اور ہماری اولادیں محفوظ ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟ پر یار لوگ سمجھ بیٹھے اب وہ شائد سبھی کے حقوق کی لڑائی لڑیں گے۔ پھر ناراض ہونا شروع ہوگئے۔۔ اصل میں دنیا میں کچھ لوگوں کا خیال ہے حقوق کے حساب سے تمام انسان تقریبا تقریبا برابر ہیں ۔ یا نہیں؟؟   او ہو ۔ یہ بحث تو ابھی بالائی ایوانوں میں  مکمل ہی نہیں ہوئی تھی۔۔

لیکن یہ بہرحال طے ہو گیا تھا کہ لڑائیاں اب سیاسی و ریاستی ہوا کریں گی۔ اور  ہر کس و ناکس سے ہیرو بننے کا بوجھ اٹھا لیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ موقع محل کی ضرورت کے مطابق ایک تیار آدمی ہی میں سے ہیرو برآمد ہو جاتا ہے۔ دور کہیں کسی بستی میں وقت کسی انسان کےکردار کی برسوں خاموش پرورش اور پرداخت سے ایک ہیرو  تیار کرتا ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔ لیکن وہ زمانے شائد لد گئے ہیں۔ اور اب ہماری ضرورت ہے اینٹی ہیرو۔۔

 ہمارے آپکے پسندیدہ فنی۔ آکورڈ ۔ اینٹی ہیرو نے کسی قسم کوئی تیاری نہیں کی ہوتی۔ وہ ایک جینوئین بندہ ہوتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں سے ناواقف۔ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں اور حدود سے آگاہ۔ اس کے پاس حالات کا مقابلہ نہ کرنے کی معقول وجوہات ہوتی ہیں۔ اور وہ ان پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتا۔ ویسے تو وہ حالات کے دباؤ میں آکر کسی فوری کرداری تبدیلی کااہل ہوتا بھی نہیں۔ اس کا نعرہ ہوتا ہے۔ ناٹ ٹوڈے۔ بھاگو۔

مقابلے سے بھاگنے کو پرانے زمانے میں لوگ بزدلی کہتے تھے۔ یوں تو ہم سب خوف کے اندرونی جذبے سےفطری طور پر لیس اس دنیا میں آئے ہیں۔ اصل میں جب ڈارون کی مستقبل کے مقالوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ جاندار ارتقا کے مراحل طے کرتے ہوئے انسانی تہذیبی معاشروں میں ڈھلے تو جہاں انہوں نے کئی ناقابل استعمال خصوصیات کو فراموش کیا وہ اس پرمیٹو خوف سے جان چھڑانا بھول گئے جس کا مقصد جانداروں کو خطروں سےآگاہ کرنا اور ان کی بقا کو ممکن بنانا مقصود تھا۔ تاہم بزدلی اس سے کچھ آگے کا مسئلہ ہے۔ 

ڈر تو کسی خطرہ کاایک جسمانی ری ایکشن ہے لیکن بزدلی کسی خطرہ کا ایک اخلاقی ری ایکشن ہے۔ جسمانی طور پر خوف ہمیں خطرےسے دور لے جاتا ہے لیکن بزدلی ہمیں وہاں سے دور لے جانے کی کوشش کرتی ہے جہاں ایک سٹینڈ لینا اور خطرے سےلڑنا ہماری ہی نہیں دوسروں کی بقا کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے۔ انسانی ارتقا میں یقیناً شخصی بہادری سے بزدلی تک کا سفر ایک اہم باب ہے بعینہ جنگی ہتھیاروں کی ترقی  یعنی  پتھر سے نیزہ۔ اس سے تیر۔تیر سے تفنگ۔ اس سے توپ۔ میزائل ڈرون وغیرہ کے باب کے ساتھ۔ ذرا سوچیں اگر ہر دوقدروں یعنی جنگی ترقی اور شخصی تنزلی میں تناسب معکوس ثابت ہوجائے تو آج کا اصل ہیرو کون بنتا ہے۔

ویسے ہمیں تو گھروں میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ زیادہ ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کا مسئلہ ہے وہ خوددیکھ لے گا۔ لیکن پہلے تو آپ نے پڑھایا تھا ہم سب ایک جسدواحد ہیں۔ ون سائیڈڈ ہوجائیں پلیز۔ویسے بھی کوئی ایک صدی پہلے تک امہ واحدہ جیسے لفظوں کی آبرو کچھ قائم بھی تھی۔ حتی کہ ہمارے اپنے بزرگ بھی لفظ پاکستان اسلام اور امت مسلمہ کے سابقے یا لاحقے کے بغیر نہیں بولتےتھے ۔ لیکن جب نظریاتی ملکوں کی سرحدوں کے بلیو پرنٹ سے نظریہ نکل جائے تو صرف سرحدیں باقی بچ جاتی ہیں ۔ اب ہر دس کوس پرایک تازہ علم اٹھایا جاچکا ہے۔ قوموں کو اپنے وجود کی غرض و غایت کی خاطر اپنے تشخص میں رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت کی فروعیات کی آمیزیش کرنی ہی پڑتی ہے۔ پھر خدا دعا، زندگی ، روشنی جیسےلفظوں میں بھی آفاقیت کی بجائے مقامیت در آتی ہے۔ پاکستان کے لفظ کے ساتھ پھر کچھ اور نہیں جچتا۔۔ بس پاکستان،پاکستان۔ عجب نہیں کہ ان نعروں سے اب سرفروشی کی تمنا نہیں جاگتی، گریہ و ملال بڑھتا ہے۔ 

گریہ سے خیال آیا عزہ داری کی روایت تو بعد میں صدیوں جاری رہتی ہیں۔ لیکن اس کا فائدہ ؟ جیسے کسی نے کہا ہے کہ مستقبل کا مورخ غرناطہ کے سقوط پر ترکوں کے بحری بیڑے پر سوال اٹھائے گا۔ خیر سوال تو مورخ اور بھی بہت چیزوں پر اٹھائے گا۔ دعا کریں کے وہ سوال ہم تک نہ پہنچے کیونکہ جواب مشکل ہیں۔ اور آخرت میں آسان حساب کا ایک وظیفہ بھی شروع کردیں۔  مجھے بچپن سے تاریخوں اور غداروں سے شدید الجھن ہوتی ہے۔ اس لیے میں تاریخ کتابوں کی بجائے لوگوں کے ذاتی ورژن سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔تو جب بھی کوئی بزرگ بات کے موڈ میں ہوتا تو میں پوچھ لیتی اچھا آپ کے زمانے میں انسانی تہذیب اتنےروشن دور سے گزری، انسانی تاریخ اتنے تاریک دور سے گزری۔۔ آپکا کیا حصہ تھا۔ جو ان کا کردار اسوقت تھا وہی  کردار آج میری تہذیب اور تاریخ میں میرا ہے۔ لیکن شائد نہیں ۔ میں نے تو اتنی سارے واٹس ایپ اور  پیٹیشن فارورڈ کی ہیں۔ ریٹویٹ ۔ غیر ضروری چیزوں کا بائیکاٹ۔ ضروری چیزوں کی ذخیرہ اندوز۔۔ وہ میرا مطلب ہے جو کچھ میرے بس میں تھا میں نے کیا۔


یہاں میں خود سے ایک مکالمے میں مشغول ہو جاتی ہوں۔

ہم بےچارے کیا کرسکتے ہیں ؟ وہ بیچارے تو کھانے پانی بجلی کے بغیر کتنی تکلیف میں ہیں۔ بے چارے صبر کے علاوہ۔ حتی کہ یو این بے چاری ان کو امداد نہیں پہنچا سکتی۔۔
اچھا جب ہماری اپنی بجلی ناجائز کٹ جاتی ہے تو ہم اتنے پروایکٹو کیوں ہوجاتے ہیں۔
وہ تو ہم اپنے اداروں سے کہتے ہیں نا
اور اگر ہم پر کسی اور کا قبضہ ہو جائے تو پھر تو بجلی کے بغیر رہنا اور صبر کرنا فرض ہو جائے گا؟
 نہیں وہ تو۔۔ اچھا یہ جنگ اور امن وغیرہ نا حکومتوں کے مسئلے ہیں ۔ عوام کیا کر سکتے ہیں؟؟
عوام ؟؟۔ حکومت تو عوام نہیں بناتے؟ ابھی ہم ایک نئی حکومت بنانے والے ہیں انتخاب کا حق ہے تو کیا جنگ اور امن کی پالیسی پر بات اس انتخاب کا ایک اہم حصہ نہیں بن جاتا؟؟۔
اچھا اسرائل اور بے چارے فلسطين کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔۔
 فلسطین عوام کے چاروں طرف جو سارے مسلم ممالك۔۔
 نہیں اسرائیل کے ساتھ امیریکا ہے۔۔ 
تو پھر فلسطین کے ساتھ پاکستان ہے۔(پاکستان اسرائیل کے ساتھ تو نہیں۔ رائٹ؟)۔ کیا امیریکا اور پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے قریبا ایک جتنے لوگ نہیں رہتے؟ 
نہیں انہیں تمام مغربی طاقتوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ 
اور مشرقی سپورٹ۔ کیا مشرق کی آبادی مغرب سے زیادہ نہیں؟
مغربی طاقتوں۔۔ لفظ طاقت یہاں اہم ہے
 اچھا!! ۔۔ طاقت۔۔ ڈرون۔ جو سٹون سے عظیم تر ہے۔۔۔ تو یہ ہوتی ہے بزدلی۔۔ نفسیاتی شکست۔ تو پھر  مظاہروں میں ہیرو بننے کا فائدہ صرف اس سٹوری کو ہونےوالا ہے جو ہم نے اپنے ناآباد وقتوں میں خود کو سنا کر سر دھننا ہے؟ وہ سٹینڈ جو ایک دفعہ ہم نے ظلم کے خلاف گھر کے باہر کھڑے ہو کر لیا!!۔

ویسے کیا تمہیں معلوم ہے ہمارے بچوں کی پسندیدہ کال آف ڈیوٹی جو ایک مقبول ویڈیو گیم ہے اس میں دشمن تو بدلتے رہتے ہیں مگردوست عموما یہی مغربی طاقتیں ہوتی ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی ذہن سازی ہے۔ اور ہم بھی امیریکا کو دوست ملک توسمجھتے ہیں۔ اور ہمارے دوستوں کے دوست۔۔ ہمارے دوست ہوتے ہیں اور ان دوستوں کے دشمن ہمارے دشمن۔۔ تو گویا ہم خود ہی ہمارے بدترین کھلے دشمن ہیں؟؟ ہمم۔۔ لگتا ہے سیز فائر کے بعد۔۔ "کیا ہمیں اب اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟" والی دانشورانہ بحث دوبارہ چھڑنے والی ہے۔۔ وہ کیا کہا تھا غالب نے سر پھوڑنے کے بارے میں۔ ہاں ۔ کہ کاش میں بہادر ہوتی اور یہاں ایک بڑا سا پتھر ہوتا۔۔


۔

کوئی تبصرے نہیں: