23 اکتوبر 2023

یاکوشیما نیشنل پارک



جاپان کا یاکوشیما نیشنل پارک دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصے میں ایکٹو آتش فشاں ہیں۔ اور دوسرا قدیم درختوں اور پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ یہ دوسرا حصہ  جس کو یاکوشیما ہی کہتے ہیں پریوں کی کہانیوں کی طرح خوبصورت اور سرسبز ہے۔مسلسل بارشوں کی وجہ سے بیشتر حصے میں چھوٹے ندی نالے بکثرت ہیں۔ گرینائٹ کی چٹانوں کے گرد پتھروں پر کائی گہرے سبزے کی طرح جمی ہے۔

یاکوشیما جزیرے کے بالکل وسط میں یہاں کا بلند ترین پہاڑ میانوورا ہے جسے تم اپنی ہائیک کی منزل بنا سکتے ہو۔ موسم بہار میں ان پگڈنڈیوں کے ساتھ سدا بہار جاپانی پھول دور تک پھیل جاتے ہیں لیکن اگست اور ستمبر میں تمہیں پتھروں کے درمیان نیلے جامنی رنگ کے پھول نظر آئیں گے جو ماحول کے سحر میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ میانوورا پہاڑ کے جنوب اور مغرب کے دامن میں دیودار کے گھنے جنگلات .(یاکوسوگی) کے ساتھ ساتھ چینی برگد (فکس مائیکرو کارپا) کے درخت بھی ہیں۔ یہییں پر اوکو نو تاکی آبشار ہے جو اپنی اونچائی اور رفتار کی وجہ سے ایک خوفناک آبشار سمجھی جاتی ہے۔

یاکوسوگی زمین۔ یاکوشیما میں موجود دیودار کے قدیم ترین درختوں کی زمین ہے۔ یہاں پر چھے ہزار سال تک کے قدیم درخت موجود ہیں۔ جن میں سب سے پرانا جومون سوگی سمجھا جاتا ہے۔ اس کو فطری ورثہ میں شامل کرنے سے ایک طرف تو یہ کچھ حد تک محفوظ ہوگیا۔ لیکن دوسری طرف اس کے قدیم تنے پر سیاح لوگوں کا اپنے نام کھودنے اور اس کی دور تک پھیلی جڑوں کا خٰیال نہ کرنے کی وجہ سے یہ درخت کافی متاثر بھی ہوا ہے اور اس کے کچھ حصہ اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔

میانوورا کی چوٹی سے اس خوبصورتی کا ایک مکمل نظارہ ممکن ہے۔ گھنے درختوں کے پس منظر میں آبشار کی سفیدی بھی قابل دید ہے۔ لیکن اس جگہ کا اصل حسن درخت ہیں گو زمین پر پانی کی کثرت سے یہ ایک مشکل ہائیک ہے۔ لیکن پیدل چلے بغیر تمہیں یہاں کا اصل حسن دکھائی نہیں دے گا۔ درختوں کے تنے سال ہا سال سے ایک دوسرے میں ضم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ روشنی اور پانی کی تلاش میں اردگرد موجود پتھروں کے درمیاں سے اچکتی۔ لپٹتی ٹہنیاں اور جڑیں ایک ساتھ مل کر فطرت کے تراشے ہوئے مجسمے محسوس ہوتے ہیں۔ جن کے چہرے تو اپنے اپنے ہیں لیکن باقی بس ایک ہی وجود ہے جو ارد گرد پھیلا ہوا ہے۔

ان کی پیچ دار بلندی، جڑوں کا پھیلاؤ اور گہرائی مجھے ان کی قدامت سے روشناس کررہی ہے۔ یہ درخت ان تمام واقعات کے خاموش گواہ ہیں جو ان جنگلوں پر گزر چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ راز ان کے تنوں میں پوشیدہ ہیں ۔ کچھ ان کی جڑوں میں چھپے ہیں۔ ایک لمحے کو میں ان کے سامنے اپنے آپ کو بے حد ناواقف اور چھوٹا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ میں اپنی عاجزی میں وہاں خاموش ٹہر گیا ہوں اور تبھی ان کے وجود کی کشادگی  مجھے اپنا مان کر اپنے برابر، اپنے قریب بٹھالیتی ہے۔ میرا یقین بحال ہونے لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے جنگلوں کے اپنے پن کو چھونے کے لیے ہمیں معمولات اور منطق کی ڈور ہاتھ سے چھوڑنی پڑتی ہے۔ تبھی ان کا لمس وہ ساری داستانیں سناتا ہے جنہیں ورنہ ہم کبھی جان نہیں سکتے۔

۔۔۔۔۔

ہچ ہائیکر کی کہانی 


کوئی تبصرے نہیں: