20 اکتوبر 2023

ہزاروں کا مجمع

  Thousands Gather

اپنے اپنے نامزد مسیحاؤں کو لکھ کر پوچھو 
“ کیا تم خدا کے ساتھ مل کر ہماری خاطر ہماری جنگ لڑو گے ؟” 
مگر ہمارے مسیحا جانتے ہیں طاقت صرف خدا کے ہاتھ میں ہے 
اور وہ لفظوں کی تاثیر سے بھی آشنا ہیں۔ دعائیں کر رہے ہیں۔ 
وہ دیکھو قاتل بموں۔ بے رحم گولیوں کی یلغار میں 
ہمارے لشکر کے ننھے سپاہی ہاتھوں میں پتھر تھامے۔ 
ہماری دعاؤں کے سائے میں نوخیز جسموں کے نذرانے لیے کھڑے ہیں 
ہماری دعائیں سر جھکائے ہاتھ باندھے ان کی خاطر رو رہی ہیں 

اور ہم بھلا کیوں مصر ہیں یہ جنگ ہی ہے؟ 
عین ممکن ہے یہ محبت ہو۔ جس میں سب کچھ جائز رہا ہو 
جن محبت ناموں پر بند کمروں میں دستخط ہوئے ہیں 
ان پر یقین رکھو۔ آؤ تعویذ محبت لکھو۔۔ 
کشتگان۔خنجر۔تسلیم۔را۔ہر ۔ زماں۔از۔ غیب۔جاں۔۔ 
ہر روز ہزاروں تعویذ لکھو ۔ چالیس دن تک ہر پانی میں بہاؤ 
محبت کی تاثیر وحشی درندے تک کو رام کر لیتی ہے۔ 
یقین رکھو جلد ہی امن کی فاختائیں۔۔ زندہ یا مردہ ۔۔ 
ہمارے قدموں سے لپٹی ہوں گی۔۔ 

لفظوں کی تاثیر پہچانو۔ 
اپنے کٹار لہجوں کے ہتھیار ویب پر روانہ کر دو 
دنیا کو بتاؤ کون انسانیت کا خون کرنا چاہ رہا ہے 
کون بقائے حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے 
یہ جنگ کیوں ہے اور کون لڑ رہا ہے کہ میرے جان بازوں کو 
اپنی جان اور مال اور اولاد سب لٹا کر اب تک 
محض ایک غنڈے دہشتگرد کا درجہ ملا ہے۔۔ 
اس یکطرفہ لڑائی کے ظالم کے چہرے کا نقاب نوچو 
اور اگر وہ آئینہ ہوا تو ڈر نہ جانا 

اور دعا بھی کچھ تو ڈھنگ سے مانگو۔ 
دعائیں مانگو کہ یا رب اب کے بموں کو 
آسمان سے اترے کھانوں کے خوان کردے 
بادلوں میں زمزم بھر دے۔ بہتے لہو کو شبنم کر دے 
اجل کو ٹال اور سارے زخموں کو پھول کردے۔ 
دشمن کی آنکھوں میں رحم بھر کر دوستوں کو واقفِ احوال کردے۔ 
ماؤں کے آنسو میٹھے ہوں اور سارے موسم بہار کردے 
یا پھر ہم کو غیب سے عطا کر آئرن سوٹ۔ آئرن ڈوم۔۔سونک رائفل۔ 
اگر یقین پر جوا لگاہے ہو تو ممکنات سے کچھ تو پرے کا سوچو۔ 
لیکن پہلے سوچو خدا تم کس کو کہ رہے ہو۔ 
اسی مطابق اپنی دعاؤں کا تلفظ اور لہجہ سنوارو۔ 

دیکھو سمندر میں کیسے بڑی مچھلیاں چھوٹیوں کو نگل رہی ہیں۔ 
لیکن کچھووں نے کسی خاموش مظاہرے کا انعقاد نہیں کیا ہے 
ہرنوں کی کوئی ٹولی امن مذاکرے کے لیے 
شیروں کے غاروں کے باہر قطاروں میں نہیں کھڑی ہے 
درخت اپنے گرتے پتوں کی خاطر خزاں سے نہیں الجھتے 
کیا ہم ان کچھوؤں اور ہرنوں اور درختوں سے بہتر نہیں کہ 
احتجاجی مراسلے لے کر گھروں سے نکل آئے ہیں؟ 
اپنے پلے کارڈوں پر ان مقتولوں کی کہانی لکھو 
جو اپنے ہاتھوں پر اپنے نام لکھ کر گھر سے نکلتے ہیں 
کہ ان کے ورثأ ان کی پہچان کرلیں۔ اور 
مرگ ناگہانی کو بھی اتنے مصروف دن میں دقت نہ ہو۔ 

دیکھو کل جہاں پر بستیاں تھیں۔ اور یقینا کچھ خواب بھی ہوں گے 
گرد کے بادل کے نیچے کیسے خاک کا پیکر ہوئی ہیں۔ 
یہ خاک راکھ بن کر ہمارے چہروں جم جائے گی۔۔ 
ہر نیا گلاب اپنی قبر پر پتیاں بن کر بکھرتا جائے گا۔ 
شائد اگر ہم ہزاروں کا مجمع صحیح وقت پر صحیح جگہ پر ہوتے 
تو اپنے جسموں کے گھیروں سے بہت سی موتیں روک لیتے 
اور جب مورخ ہیومن شیلڈ کے ارتقا پر مضمون لکھتا 
تو تین منٹ کی ایک خاموشی ہماری قربانی کو بامعانی کرتی 
شمعیں اٹھائے لوگوں کے دل ہماری تحسین سے بھاری ہوتے 

مظاہروں میں کیوں کھڑے ہو؟ 
جبکہ ہمارے پیروں پر چڑھے برانڈڈ جوتے لمبی مسافتوں کے اہل ہیں 
خاموش بینر کیوں تھامے ہوئے ہو 
ہم بول سکتے ہیں اور ہم اس قدر ہیں کہ ہماری چیخوں سے ڈر کر 
درندوں کے غول بھی بیاباں میں لوٹ جاتے 
ہزاروں کا مجمع چل پڑے تو سمندر بھی شائد راہ دیدے۔ 

بلند برج تعمیر کرنے والے شائد اپنے گوشوارے مسلسل اپڈیٹ کر رہے ہیں 
ممکن ہے نئے آسائشی گھروں اور دفتروں کی پری بکنگ کھل چکی ہو۔ 
لیکن یاد رکھو۔ کچھ دنوں میں کوئی بھی باقی نہ رہا تو۔ 
تم یہاں جو ہزاروں کھڑے ہو۔ اس دن یونہی مت ہار جانا۔ 
غم گرفتہ دل سے گو فنڈ می پر اپیل لکھنا۔۔ 
ساتھیو! سارے زندہ درگور لوگو! 
تمہیں علم ہے ہمارے اپنے، ہمارے پیارے اس زمیں پر مرچکے ہیں۔ 
یہاں کے ذرے ذرے پر انکا لہو بہا ہے۔ 
پیسے جوڑو ۔۔ ہم خریدیں گے ان کی بے نام قبریں۔۔ 
اب یہ واجب ہے ہم پر۔ ایک طرح سے خوں بہا ہے۔ 

ان گھروں اور دفتروں میں کچھ کہ شائد بر لب سمندر بنیں گے۔ 
مغربی بالکنی میں ٹہلتے ممکن ہےتمہیں لگے کہ 
بجھتی سی بارود کی بو میں مانوس گھروں کی خوشبوئیں چھپی ہیں۔ 
ہوا کے دوش پر عورتوں اور بچوں کی چیخیں گونجتی ہیں۔ 
تم غلط سمجھ رہے ہو یہ ان کے زخموں سے بہتا لہو نہیں ہے ۔ 
نہ آنکھ کی سفیدی میں حسرتیں جمی ہیں۔ 
پانی پر چاند سوسن ہے۔۔غروب آفتاب لالہ ۔ 
فضا میں جنت کے پرندوں کی کھلکھاہٹیں رچی ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں: