بچپن میں مجھے بارشیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ مجھے بارش میں نہانا بہت پسند تھا۔ اس کی ایک وجہ تو میرا بچپنا تھا۔ دوسرا تب سارے اکھٹے تھے تو ایک طرح سے جنگل میں منگل بھی ہوجاتا تھا۔ پھر شائد موسم کا بھی کچھ اثر تھا۔ سخت گرمی میں اچانک اٹھنے والی مٹی بھری ہوا کی مہک، پھر ہواکا ایکدم تیز ہوجانا اور گھنے بادلوں کا دن میں اندھیرا کرنا۔ جلتے ہوئے دن کا ایک پر فضا میں بدل جانا اچھا لگتا تھا۔ بارش سے چیزیں دھل جاتیں اور پودے زیادہ سبز لگنے شروع ہوجاتے۔ ماحول صاف ہوجاتا اور مجھے بارش کے رحمت ہونے احساس اندر تک چھو لیتا۔
تب مجھے بارشیں اس لیے بھی اچھی لگتی تھیں کیونکہ ہمارے چھوٹے سے آنگن میں اس وقت کسی نے مجھے سیلابوں کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ کہ کیسے کچھ علاقوں میں یہ بارشیں لوگوں کی چھتوں کو اڑا لے گئی ہیں یا وہ ٹپکنے لگی ہیں۔ کچھ لوگ ننگے آسمان تلے اپنے سب کچھ کھوئے بیٹھے ہیں۔ کچھ کے پاس کے کھمبوں میں کرنٹ آجانے سے ان کے کم سن بچے جان بحق ہو چکے ہیں۔ یا ان کی تیار فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ ہوا کے آوارہ جھونکوں پر سوار تلے گئے پکوانوں کی خوشبوئیں ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہیں۔ بازاروں میں پھیلا کچرہ بارش کے پانی سے مل کر لوگوں کے لیے طرح طرح کی بیماریاں لا رہا ہے۔ بارش سے ان کے اطراف نکھرنے کی بجائے کیچڑ زدہ ہو گئے ہیں۔
مجھے تب بلیک رین کے بارے میں نہیں معلوم تھا جو ایٹم بم گرنے کے بعد سالوں تک ریڈی ایشن سے آلودہ رہی اور مسلسل برس برس کر لوگوں کو تاریخ کے ایک تاریک دور میں انسان پیدا ہونے کی بے چارگی سے سمجھوتا کرنے پر مجبور کرتی رہی۔ تب مجھے تیزابی بارشوں کے بارے بھی معلوم نہیں تھا جو ہماری پیدا کئی گئی آلودگی کو چاروں جانب سے لپیٹ لیٹی ہے لیکن پھر آخر نیچے ہمیں پر برستی پڑتی ہے۔ پھر یہ بارش جہاں بھی بہتی ہے ان میں گھلے کیمیکل ان کے ساتھ اترتے ہیں۔
پانی کی مجبوری یہ ہے اسے زمیں پر اترنا ہی پڑتا ہے وہ ہوا میں زیادہ دیر ٹہر نہیں سکتا۔ سو غلطی بارش کی تو کبھی نہیں ہوتی کہ ہم نے اپنے ماحولیات کو اس رحمت کو وصول کرنے کے لیے تیار کیا ہے یا نہیں۔ یہ نیچر کا سائیکل ہے۔ جو بھی آپ اسے دیتے ہیں وہ آپکو لوٹا دیتی ہے۔ لیکن خود کو۔ اپنے ماحول کو صاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ کاش ہم انسان بھی صفائی کی اس رِیت کو نبھانے میں اپنا کردار پیچان سکتے۔
بہرحال آج بارش کی یاد سے بندھا خیال یہ تھا کہ ان بیرونی بارشوں کے ساتھ کچھ بارشیں ہمارے اندر بھی ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی تو دل پر غم کی برکھا ہوتی ہے جو ہمارا تن من ڈبو ڈالتی ہے۔ اور کبھی یہ خوشیوں کی بارش ہوتی ہے ایک پرشور چشمےکا بڑا ریلہ بن کر ہمارے وجود سے پھوٹی پرتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی اچانک سکون کی بارش ہوتی ہے۔ پانی کا ہر قطرہ ایک گنگناہٹ کی طرح ہم پر اترتا ہے اور دل و دماغ کو تروتازہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ان لمحات کا اصل حق یہی ہے کہ انہیں شکر گزاری سے قبول کیا جائے اور پورے دل سے جیا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں