23 اگست 2023

کچھ کہیے


کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں آج غالب غزل سرا نہ ہوا

ویسے تو ایک لکھاری لان میں پھرنے والے خرگوشوں اور چپ منک کی طرح خاموشی سے اپنی خفیہ حرکتوں میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی کارروائی کا اس وقت تک علم نہیں ہوتا جب تک وہ راتوں رات آپ کے پودوں کو اچھی طرح اجاڑ نہ دیں۔ نہیں میرا مطلب ہے جب تک ان کی کوئی تحریر کسی اچھی سی شکل میں ٓاپ کےسامنے نہ آجائے ۔لیکن میں لکھاری کی بات نہیں کررہی جس کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہنا ہوتا ہے خواہ کوئی سنے یا نہ سنے۔ 

ایک چپ سو سکھ

ہم سب ہی کو اکثر کچھ نہ کچھ تو کہنا ہوتا ہے لیکن اختلافی رائے کا اظہار کرنا ہمیں اتنا پسند نہیں آتا۔ آخر کیا ایک چپ سو سکھ والا محاورہ ہمارا فلسفہ حیات نہیں رہ چکا۔ مسئلہ یہ ہے کہ سبھی کو معلوم ہے ہم اپنی رائے کا اظہار شائد ہی کریں اور وہ بھی مائینڈ ریڈنگ کے ماہر نہیں ہوتے تو ہمارے خیالات بس ہمیں تک رہ جاتے ہیں۔ لیکن پھر وہ اندر ہی اندر ہمیں گھلانا شروع کر دیتے ہیں۔ 

خیالات کو تحریر کرنا ۔

عمومی زندگی میں تو اس کا شائد اتنا فرق نہیں پڑنا کہ لیکن زندگی کے بڑے واقعات میں اس سے بڑے مسئلے پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے اپنے خیالات کو کہیں پر لکھ لینے سے ہمیں انکی اصل صورت کو بغور دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی کتر بیونت میں ہم خالص مسئلہ میں سے فالتو بھرتی کا مواد برطرف کرکے بنیادی مسئلے کی شناخت کر سکتے ہیں اور پھر اس پر بات کرنا نسبتاً آسان ہوسکتا ہے۔

کیا اختلاف رائے مہلک ہیں

آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہوگا۔ جہاں دو برتن ہوں گے وہاں کھٹکا تو ہوگا۔ اس بات کو ہم کبھی کبھی ایک وارننگ کی طرح لیتے ہیں کہ کہیں دو برتنوں کے باہم ٹکرانے سے کوئی آواز نہ پیدا ہو جائے ۔ حلانکہ اس بات سے ہمیں تشفی ہونی چاہیے تھی کہ اگر چھوٹا موٹا اختلاف ہو تو اس سے گھبرانے کی بجائے اس کے رخنوں کو گہرا سانس لینے کاایک موقع سمجھیں ۔ جیسے بند غار میں ایک سوراخ جس کے بیچ سے اب ہم اطمینان سے اپنے دل کی بات کر سکتے ہیں۔ 

میرے مطابق

ایک طریقہ جس سے مجھے کافی مدد ملتی ہے وہ ہے واحد حاضر کے صیغے میں بات کرنا۔ یعنی “ میں ۔ مجھے” وغیرہ۔ اس سے سب سے زیادہ تو ہم اپنے آپ سے ایماندار رہتے ہیں اور دوسرا ہم بلیم گیم میں پڑنے سے بھی بچ جاتے ہیں۔ جونہی ہمارے لہجے میں دوسرے کو الزام دینے کا شائبہ نکل جاتا ہے دوسرا اپنے مدافعاتی حصار سے باہر آنے لگتا ہے اور ہم ایک دوسسرے کو بہتر سننے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

بہترین بات کہو

بات کہنے کے ہزار طریقے ہوتے ہیں۔ اسی طرح گفتگو کا موقع محل اور لہجے کا اتار چڑھاؤ۔ چہرے کے تاثرات، تمیز تہذیب۔ سچائی اور خلوص سب ہماری بات چیت کے دوسرے اہم عناصر ہیں لیکن مجھے یقین ہے اردو گفتگو کے گروپ میں آپ کی دل چسپی آپ میں قدرتی طور پر اس صلاحیت اور شائیستگی کی دلیل ہے۔ بس آج کا خیال یہی ہے کہ کہنے والی بات کو کہ دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ نہ کہنے کے نقصانات کہنے سے زیادہ ہیں۔ جون ایلیا کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی😓

آپ کو آج کی پوسٹ کیسی لگی۔ اپنے خیالات کا اظہار ضرور کریں۔ اور اگر آپ نے آج کچھ لکھا ہے تو ڈے فورکے ٹیگ کے ساتھ کمنٹس میں  شئیر کریں۔


کوئی تبصرے نہیں: