ذاتی طور پر شکوک و شبہات کی حوصلہ افزائی کرنے کو ورک آف آرٹ سمجھنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ پھر میں کسی شرلاک ہومز کی طرح میں ایک عام سی بات کے نہ نظر آنے والے پہلوؤں کو سوچ کر اور اس میں بہت سی رنگ بازی ڈال کر اور واقعات کو مبالغے کی انتہا تک پہنچا کر میں ایک پوری فرضی کہانی ترتیب دے سکتی ہوں۔ ایک مصنف کے حساب سے یہ میرے فن کے اظہار کا نادر موقع بن سکتا ہے۔ ہے نا؟
جی بالکل مگر صرف ایک سنسنی خیز ناول یا مووی میں ۔ یا پھر اگر کہیں قانونی تفتیش ہو رہی ہو تو بھی ٹھیک ہے۔لیکن ان حد سے بڑھے ہوئے شکوک کا استعمال اگر میں کسی کی عمومی مدد کی پیشکش پر یا کسی کے گھر پر بلانے یا دوستانہ میل جول وغہرہ جیسی روز مرہ باتوں پر لگانا شروع کردوں تو وہ ذرا سی جو بات ہوگی وہ دور تلک جائے گی۔۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے تو ہمیں معلوم ہے کہ لیکن عموما وہ نیتیں کیا ہے اس کے بارے میں بھی ہماری معلومات کچھ کم نہیں ۔اسی لیے تو کبھی ہم کسی کی مہربانی کو اس کی خود غرضی کا پرتو سمجھ لیتے ہیں۔ قدر دانی کو چاپلوسی کا پیراہن پہنا دیتے ہیں۔ ان کی فکر کو ان کا احسان چڑھانا کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں۔ الغرض ہم اپنے مفروضوں کے تحت دوسروں کے بیشتر رویوں کو ٹیڑھی آنکھ سے ہی دیکھتے رہتے ہیں۔
اور اگر ہم کسی کی اچھائی تک کو اپنے کچھ برے تجربات کے تحت منفی مفروضات کی صورت دے دیتے ہیں تو ذرا سوچیں ہمارا ردعمل کسی ایسے کام کے بارے میں ہوگا جس سے ہمیں حقیقتا کچھ نقصان کا احتمال ہو۔ اس سے ہماری کوئی حق تلفی ہوتی ہو۔ یا ہمارے جذبات کو کسی قسم کی ٹھیس پہنچنے کا امکان ہو۔ آف کورس یہ تو سیدھا سیدھا اعلانِ جنگ ہی سمجھا جائے گا
شائد اسی لیے ہمیں بہت گمان کرنے سے روکا گیا ہے۔ شائد اسی لیے کہتے ہیں کسی کو ستر دفعہ شک کا فائدہ دو۔ کیونکہ ہو سکتا ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں حقیقت وہ نہ ہو اور حالات و واقعات ہمارے گمانوں کو ہمارا من پسند رنگ دے رہے ہوں۔ کچھ سائینسی تحقیقات اس کی توجیح ایسے کرتی ہیں کہ دوسروں کے بارے میں مثبت سوچنے سے ہماری سوچ میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ دل کی نرمی بڑھتی ہے جو ہمارے تعلقات میں خوشگواری پیدا ہو جاتی ہے۔ اور ہماری زندگی میں اطمینان اور سکون کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟
اس پوسٹ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ضرور کریں ۔ اور اگر آپ نے آج کچھ لکھا ہے تو اسے ڈے فائیو کے ٹیگ کے ساتھ کمنٹس میں شئیر کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں