26 اگست 2023

مجھے کچھ اور کہنا تھا


ایسا کئی مرتبہ ہوتا کہ ہم اپنے پروگرام کو کسی طرح ترتیب دیتے ہیں۔ ہمیں سب پتہ ہوتا ہے کہ ہم اس روز کیا کھائیں گے۔ اور کیا پہنیں گے اور کس سے ملیں گے اور کس سے کیا بات کریں گے۔ لیکن ہمارا دن کسی اور ڈھب سے چڑھتا ہے۔ ہماری ملاقاتیں ہمارے آرگنائزر کی تفصیل کے برعکس کچھ اور لوگوں سے ہو جاتی ہیں۔ ہم اپنی ترجیحات کی فہرست کے برعکس کچھ اور کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اپنا پکا پکایا کھانا چھوڑ کر کوئی الگ شے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ ہم اپنی سوچی سمجھی تحریر کی جگہ کچھ اور لکھنے لگتے ہیں۔ معلوم نہیں ہم کبھی کبھی اپنے سوچے سمجھے سیدھے صاف اور آسان سے پلان کی بجائے اپنی زندگی کو ایسے پیچیدہ کیوں کر لیتے ہیں۔

لیکن ایک بات ہے یہ شاعری کے لیے بہت اچھا موقع ہوتا ہے شائد کچھ شاعروں کو صاف اور سیدھے لگے بندھے ماحول میں سوچنے کی کچھ خاص تحریک نہیں ملتی لیکن نئی انوکھی چیزیں ان کی سوچ میں ضرور روانی پیدا کر جاتی ہیں۔ اور کبھی کبھی تو شائد لگی بندھی اصولی چیزوں سے ان کا دم ہی گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ تا ٓانکہ کہ کسی طرح وہ بندش کو کسی طور ذرا سا ڈھیلا کردیں۔

ان میں سے کچھ بندشیں تو ہم نے خود ہی اپنے اوپر لگائی ہوتی ہیں اور کچھ ہمیں لگنا ہے دوسروں نے لگائی ہوئی ہیں لیکن سچ پوچھیں تو وہ بھی ہم نے دوسروں کے نام پر خود پر لگائی ہوتی ہیں۔ جیسے کسی مووی میں کوئی کہتا ہے ۔ بٹ آئی ہیڈ نو چوائس۔(میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی) اور دوسرا کردار بہت خبیث سی مسکراہٹ سے جواب دیتا ہے۔ وی آلویز ہیو آ چوائس ۔(چوائس تو ہمیشہ ہمارے پاس ہوتی ہے) مجھے نہیں معلوم کہ ہم اپنی چوائسز کو سمجھ نہیں پاتے یا پھر ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں یا دونوں ہی باتیں درست ہیں۔ آج کی تحریر کے تناظر میں مجھے اپنی ایک نظم یاد آ رہی ہے۔ ابھی ڈھونڈ کر شئیر کرتی ہوں۔ اور آج کے لیے بس اتنا ہی۔ ٹیک کئیر۔🌺

فری رائیٹنگ کی اس مشق سے آپ کا کچھ لکھنے کا ارادہ بنے تو ڈے سیون کے ٹیگ کے ساتھ نیچے شئیر کریں اورلکھنے کی کوشش جاری رکھیں۔ ہر تحریر لکھے جانے کا حق رکھتی ہے۔ تحریروں کا حق نہ ماریں:)۔


کوئی تبصرے نہیں: