28 اپریل 2024

انسان کا بچہ

 جب کوئی لڑکی پوچھتی ہے کیا ہم صرف بچے پیدا کرنے کے لیے دنیا میں آئے ہیں تو سمجھ آتا ہے کہ یہ سوال معاشرتی ناانصافی کی ایسی زمین میں بوئے گئے انسانی احتجاج کے بیجوں سے پھوٹا ہے جس میں بچہ پیدا کرنا کسی نہ کسی طرح ایک کم تر درجے کاکام سمجھا گیا تھا۔ پھر نیم پختہ سماجی فلسفے ااس کو پانی دیتے ہیں یہاں تک کہ اکیسویں صدی کے باشعور خود آگاہ دماغ کا سوال بھی یہی ہوتا ہے آخر میں ہی کیوں؟؟۔۔ یہ عورت دماغ اپنی بے تاب تخلیقی توانائی سے چور۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسے اور اس کی ہم جنسوں کو کس  بنیاد پر  پیدا ہوتے ہی باقی آدھی آبادی سے کم تر قرار  دے دیا گیا ہے۔


 کہیں تو اسے جینے کا حق تک نہیں دیا جاتا۔ لیکن اگر زندہ رکھا بھی جائے تو پہلے ہی دن اسے زندگی کی دوڑ میں ہارا ہوا تصور کر لیا جاتا ہے اور ایک لوزر ہی کی طرح ٹریٹ کیا جاتاہے۔ تب وہ  پوچھنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ اس میں اور کسی بھی مادہ جانور میں کیا فرق ہے۔ مغربی معاشرہ اسے تسلی دیتا ہے کہ وہ کوئی جانور نہیں۔ وہ اور معاشرے کا کوئی بھی مرد ہر لحاظ سے برابر ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں جو وہ نہیں کرسکتی۔ اور اگر کوئی ایسا نہیں سمجھتا تو وہ پدر سری معاشرے کامارا ہوا ہے اور اس کی عقل میں فتور ہے۔ 


لیکن مقام حیرت ہے کہ یہی سوال ایک ایسے معاشرہ میں بھی اٹھایا جاسکتا ہے جس کی نظریاتی بنیادوں میں عورت کو ماں بننے کے بعد انسانیت کا بلند ترین مقام حاصل ہو جاتا ہے اور انسانی کامیابی کی حقیقی ترین سند اس کے قدموں تلے آجاتی ہے۔ اور اسے اولاد کی غیر مشروط محبت اور حسن سلوک کے سزاوار ہونے کا تہرا حق حاصل  ہوجاتا ہے۔


 آج معاشرے کی بیٹی سوچ میں ہے کہ کیا وہ شادی نہ کرے؟ یا پھر بچہ نہ پیدا کرے یا یہ کہ کتنے بچے پیدا کرے؟ وہ کنفیوزڈ ہے کیونکہ معاشرے کی ماں نے اسے صحیح جوابات نہیں مہیا کیے۔ اس نے کبھی اس پر بچہ  پیدا کرنے اور انسان بنانے کا فرق واضح نہیں کیا ۔ اس نے کبھی اپنی بیٹی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اقرار نہیں کیا کہ پدر سری معاشرہ میں جس مرد کی سوچ خلل پیدا کررہا ہے وہ دراصل اس ہی کی گود میں کھیلا تھا۔ 


یہ وہی ماں تھی جو شائد کبھی گھر سے نہیں نکلی۔ کیریر نہیں بنایا۔ راتوں کو جاگی، اپنی اولاد کو کھلایا، پلایا اٹھایا بٹھایا سکھایا سمجھایا۔۔ پڑھایا۔۔ وہی ماں جس کی زندگی کا مقصد بچے کی دیکھ بھال کے سوا کچھ نہی تھا۔ آج کی کنفیوزڈ عورت اور اس کے  ناپسندیدہ مرد کی تربیت کا بوجھ اس ہی ماں کے کاندھوں پر تھا۔ جس نے اپنی خواہشات، دل چسپیاں، عزائم، دوستوں کی محفلیں سب قربان کر دیں تھیں۔ لیکن عورت کی اتنی قربانیوں کے بعد بھی ظلم عورت پر کیوں؟ شائد اس لیے کہ اسی ماں کے باورچی خانے میں پدرسری معاشرے کی پہلی زیادتی رات کے کھانے کی نامنصفانہ تقسیم پر ہوئی تھی۔


پھر ان ناانصافیاں کی لمبی لسٹ کی وجہ سے ہی آج کی نئی عورت اپنی خواہشات دلچپییاں اور عزائم مزید قربان نہیں کرنا چاہتی۔ کبھی وہ اولاد اور کیریر کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہے ۔ کبھی اولاد پیدا کرنے کے سوال پر سوچ بچار کرتی ہے۔  بیشتر تو اس کی نئی نسل کی ایک کثیر تعداد  نیم تعلیم یافتہ پراوئیٹ سکول نرسریز میں اور کہیں گھروں رہن رکھی ہوئی گاؤں کی غیر تعلیم یافتہ بچیوں کی گودوں میں ان کی گھرکیوں تلے پروان چڑھ رہی ہے۔ 


اس ناانصافی، ناکافی جذباتی پرداخت۔ کم سنی میں روا رکھے سماجی تشدد اور زیادتیوں کی فہرست ابھی رقم ہونی ہے۔ نہیں بلکہ مغرب میں معاشرے کے اس پہلو پر بہت کام ہوا ہے۔ ان کی ریسرچ کی روشنی میں ہم بھی اپنے مستقبل میں جھانک سکتے ہیں۔ ماضی میں مغرب کی صنفی ناانصافیاں نسبتا متشدد تھیں۔ اور بہت سے بنیادی مسائل کا حل وہاں کی  عورتوں نےابھی پچھلی صدی ہی میں نکالا ہے۔ عورت کی تعلیم، ووٹ کا حق، تنخواہوں کا مسئلہ۔ مسادی حقوق وغیرہ کو بہت حد تک حل ہوئے ہیں۔ پھر بھی ان کے جسم پر ان کے حق اور اسقاط کا مسئلہ ابھی پوری طرح حل نہیں ہوا۔ بلکہ کام جاری ہے 


ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ جذباتی طور پر ناپختگی کا شکار ہونے کے باعث اپنے تمام تر مسائل کا الزام دوسروں کے سر ڈالنے کا عادی ہے ۔ اور اسی لحاظ اس کا حل بھی باہر سے ہی متوقع ہوتا ہے۔ لیکن اس دفعہ حل معاشرے کے اندر ہی سے نکالنا پڑے گا۔ انسان کا بچہ ہی وہ مخلوق ہے جو پیدا ہونے کے بعد بھی ایک عرصے تک اپنی نگہداشت کے لیے والدین خصوصا ماں پر انحصار کرتا ہے۔ اور قدرت اس کی ماں ہی کو ان عناصر سے ودیعت کرتی ہے جس کی اسے جسمانی جذباتی و روحانی ضرورت ہوتی ہے۔


بچہ صرف ماں کے جسم سے صرف پیدایش سے پہلے اور فورا بعد ہی توانائی اخذ نہیں کرتا بلکہ وہ پیدا ہونے کے بعد بھی روحانی اور جذباتی طور پر منسلک ہوتا ہے ۔ بہت سی تحقیقات اس بات کی توثیق کرتی ہیں کہ ماں کی آواز اس کے موڈ کا اتار چڑھاؤ خوشی غم وغیرہ سے بچہ براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ مفکرین سمجھتے ہیں عظیم مائیں عظیم قومیں پروان چڑھاتی ہیں۔ پہلے سات سال ہی وہ وقت ہے جب ماں اپنے بچوں کو آنے والے دنوں کے لیے جذباتی ذہانت کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔


معاشرتی ناانصافیوں اور استحصالی رویوں سے تنگ عورت اگر اس وقت اپنے پلو سے چپکے بیٹے کو عورت سمجھائے۔خود اپنی بیٹی کی عزت کرکے اپنے بیٹے کو اس کا مقام سکھائے۔ بنیادی حقوق میں بچوں کے درمیان انصاف کا معیارقائم رکھے ۔ اللہ کے اصولوں کی پابندی کرکے اپنے نقش قدم پر چلتے انسان کے بچے کی بہشت تک راہنمائی کرپائے تو ہی اس کی بیٹی سمجھ سکے گی کہ معاشرے کیسے تخلیق ہوتے ہیں۔ ان کی پرداخت کیسے ہوتی ہے۔ کامیابی کی سمتدراصل کون متعین کرتا ہے۔تب پھر وہ نہ صنفی برابری کے مصنوعی معیار تراشے گی اور نہ اپنی ذات پر اپنی مرضی کیدلیل سڑکوں پر تلاشے گی۔




کوئی تبصرے نہیں: