06 جولائی 2011

تم نے دل کو دیکھا ہے

"تم نے دل کو دیکھا ہے
اٹھا کر دائیں ہاتھ کو
جب وہ قسم کھاتا ہے
کوئی کانٹا من کی نرمی کو کبھی بھی چھو نہ پائے گا
خواہ وہ ٹوٹ کر اندر سال ہا سال چبھتا ہو
ہر ٹوٹا کنارا چاک پر ایسی نرمی سے ڈھالے گا
کوئی نہ دیکھ پائے گا رفو کا ایک ٹانکا بھی
محبت کی قسم
دل کا ہر کونہ ہمیشہ مسکرائے گا۔"

۔

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں 

دریچوں میں جگنو

رافعہ خان

5 تبصرے:

عمران اقبال کہا...

رافعہ۔۔۔ سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہا جا سکتا کہ "بہترین"۔۔۔ اور "بہت ہی عمدہ"۔۔۔

عمران اقبال کہا...

سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہا جا سکتا کہ "بہترین"۔۔۔ اور "بہت ہی عمدہ"۔۔۔

محمد یاسرعلی کہا...

پھر تم نے دل کو دیکھا ہے
جب وہ مات کھاتا ہے
قسمیں ٹوڑ دیتا ہے
اس کے اکڑے ہوئے تن پر
کچھ اجڑے ہوئے موسم
سیاہ ٹوٹے ہوئے کانٹے
پھر اکثر بین کرتے ہی

بہت بہت بہت ہی خوب
اکثر نہیں ہمیشہ ہی بین کرتے ہیں

وہاب اعجاز خان کہا...

معمولی سی کوشش سے نظم کو بحر میں لایا جاسکتا ہے۔ آپ کوشش کریں۔ نظم کو بحر ہزج میں آسانی سے ڈھالا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر

جو تم نے دل کو دیکھا ہے
اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں
وہ جب قسمیں اٹھاتا ہے
کوئی کانٹا ترے دل کو کبھی بھی چھو نہ پائے گا
ہر اک ٹوٹا کنارا چاک پر نرمی سے ڈھالے گا
کوئی نہ دیکھ پائے گا رفو کا ایک ٹانکا بھی
محبت کی قسم
دل کا ہر اک کونہ ہمیشہ مسکرائے گا

افتخار اجمل بھوپال کہا...

دل اور محبت کے متعلق جب بھی غور کيا ۔ عام طور پر دل تٹوٹتے اور محبت دھوکہ بنتے نظر آئی