16 نومبر 2010

سب سے اچھا بچہ

جب میں رات میں سارے اچھے کام کر لیتااور بابا کے پاؤں دباتا۔ تو بابا مجھے اپنے ساتھ لٹا لیتے۔ بابا کی چارپائی بہت بڑی تھی۔ بڑے بڑے پایوں والی۔ سفید کھیسوں والی۔ جو شام سے پڑے پڑے بہت ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔ رات کی رانی کی خوشبو رات بھرآتی رہتی۔ ستارے اپنی اپنی جگہ نکلتے اور چمکتے رہتے۔ اور چاند اگر جس روز میرے بستر کے دوسری طرف جانے میں دیر کرتا تو صبح سورج کو جلدی جلدی خداحافظ کہتا۔

جب میں سونے سے پہلے اپنی ساری کتابیں دل میں دھرا لیتا، اپنے کلمے اور پہاڑے۔ تو دنیا کو اچھا بنانے کے بہت سارے طریقے سوچتا۔ کبھی میں بابا سے پوچھتا ” بابا ۔اپنے قصبے جیسا اچھا؟“ اور بابا ہمیشہ کہتے۔ ”نہیں اس سے بھی اچھا۔“ لیکن مجھے تو اپنا قصبہ ہی سب سے اچھا لگتا تھا۔


اپڈیٹ: 

یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔

_______________


پرانے افسانے

رافعہ خان


3 تبصرے:

fikrepakistan کہا...

خوبصورت اور دل چھو لینے والی تحریر ہے۔

م بلال کہا...

بہت اچھی تحریر ہے۔ انسان کیا سوچتا ہے اور حالات اسے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ شاید یہی زندگی ہے۔ شاید ایسے ہی1947ء میں ہوا تھا۔

احمد عرفان شفقت کہا...

اف،کمال تحریر ہے جی۔