09 اکتوبر 2010

ثانا بابا

سب سے زیادہ برے مجھے اپنی بائیں جانب رہنے والے لگتے ہیں۔ برسوں سے ہم لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ لیکن نوازش فیملی کبھی بھی میرے رعب تلے نہیں آئی۔ اپنی کامیابیوں کا کتنا بھی ڈھنڈورا پیٹو، بچوں کی کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کردو، اپنے کرسٹلز بطور خاص منگوا کر دکھا دو۔ مسز نوازش کی گھنی مسکراہٹ پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ ذرا جلن نہیں دکھاتیں۔ اور ویسی ہی ان کی دونوں بیٹیاں ہیں۔ ملنساری اور سلیقہ بھگارنے کو بس موقع چاہیے۔ اوپر سے ان کا بیٹا ۔ سارا وقت لان میں مختلف ورزشیں کرتا رہتا ہےلیکن گریڈز ایسے لاتا ہے جیسے کتاب ہر وقت ہاتھ میں رہتی ہو ۔دل خاک ہو جاتا ہے۔ کسی روز ایسی چوٹ لگنی ہے اس ٹارزن کو کہ جنگل میں منگل ہو جائے گا۔

 اور ثانا بابا ۔ اس بوڑھے کو نکڑ پر بننے والے چوک پر میں نے اکثر دیکھا ہے۔ویسے مجھے گاڑی سے باہر کے عجیب و غریب نمونے دیکھنے کا تو بالکل شوق نہیں ہے۔ میرا شوہر مجھے اور بچوں کو صبح سکول چھوڑتے اور واپسی پہ لیتے آتا ہے کیونکہ کہ اس کے رستے میں پڑتا ہے۔ مگر کبھی جب اتفاقاً کسی ایک کو دیر ہو یا جلدی فارغ ہونا ہو تو میں بس لے لیتی ہوں۔ ہمارا گھر بس سٹاپ سے اس قدر قریب ہے کہ کبھی کبھار کے اس اتفاق کو ہم علیحدہ گاڑی خریدنے کی معقول وجہ نہیں بنا پائے۔ علیحدہ گاڑی کے بہت سے اخراجات اور لوازمات ہوتے ہیں۔

 ان اتفاقی دنوں میں اور کبھی شام کو سیر کے دوران ایک طرف خاموشی سے بیٹھے، کچھ عام مگر مختلف لگتے بوڑھے کو میں نے دیکھا ہے۔اس کے نہ تو الجھےسلجھے گندے بال ہیں۔ نہ ہی پھٹے پرانے بدرنگ کپڑے۔ اور بے شمار دانوں والی مالائیں۔ نہ کاسئہ گدائی اور نہ ہی ٹیڑھا میڑھا ڈنڈا۔ اس کی آنکھیں بھی لال نہیں ہیں۔.۔ مجھے تو بہت ہی چالاک لگتا ہے۔اسی لیے میں اسکو ثانا بابا کہتی ہوں۔


اپڈیٹ: 

یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔

_______________


پرانے افسانے

رافعہ خان


2 تبصرے:

Abdullah کہا...

سچ ہی تو ہے،
کہ جب ہم کسی کے لیئے دعا کرتے ہیں تو اللہ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو ہمارے لیئے دعا کرتا ہے ،کہ یا االلہ جو اس نے دوسرے کے لیئے چاہا وہی اسے بھی عطافرما بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی،

احمد عرفان شفقت کہا...

بہت خوب۔