08 اکتوبر 2024

افغانی بلی اور باقی سب



اینڈی: لیکن اگر میں خود ہی یہ نہیں چاہتی۔ مطلب اگر میں ایسے نہیں جینا چاہتی جیسے تم جیتی ہو 
تمسخر مت کرو اینڈریا۔ ہر ایک یہی چاہتا ہے۔ ہر ایک ”ہم“ بننا چاہتا ہے۔ 

مرانڈا پرسٹلی۔ دا ڈیول ویرز پراڈا 


اقوام متحدہ کی سائڈ لائن پر میریل اسٹریپ نے اپنی تقریر سے فلسطین میں ہوتے انسانی حقوق کی پامالی کی طرف دنیا کی نظر مبذول کرانے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ قریبا تمام بڑے خبر رساں اداروں نے اس کاوش کو سراہا۔ اس تقریر میں اخلاقی قوانین کے بدلتے معیار پر سوال اٹھایا گیا۔ یعنی کیسے آج ایک بلی اپنے چہرے پر سورج کو محسوس کر سکتی ہے اور ایک گلہری کا پیچھا کر سکتی ہے۔ ایک گلہری جو پارک جا پاتی ہے اور ایک پرندہ جو گا سکتا ہے۔ لیکن ایک فلسطینی بچہ ۔۔ اوہ نہیں۔ فلسطینی بچے نہیں افغانی بچیاں۔ اور عورتیں۔ 

میرل سٹریپ نے اس یکجہتی کا اظہار فلسطین سے نہیں بلکہ افغانستان میں جبر کا شکار عورتوں سے کیا تھا۔ جن کو آج ایک بلی سے بھی کم آزادی حاصل ہے۔خیر انسانی آزادی اور بلی کی آزادی کا باہم کوئی مقابلہ ویسے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جتنے گھنٹے ایک بلی محض اپنی صفائی ستھرائی اور نیند پر صرف کرتی ہے اس کا تصور بھی ایک انسانی عورت کے لیے ناممکن ہے خصوصا اگرآپ اس کو گھرداری کے ساتھ نوکری پر بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

بہرحال انہیں شکوہ ہے کہ طالبان نے پبلک پارکس کو خواتین اور لڑکیوں کے لیے بند کر دیا ہے۔گانا ممنوع ہے اور نئے احکامات نے خواتین اور لڑکیوں سے ان کی تعلیم اور ملازمت، اظہار رائے اور نقل و حرکت کی آزادی چھین لی ہے۔ یہ آزادی فلسطینوں سے بھی چھن چکی ہے۔ مسلسل کی جانے والی اسرائیلی دہشت گردی سے چالیس ہزار لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ان میں عورتیں اور بچیاں بھی تھیں اور ان کی بلیاں، گلہریاں اور پرندے بھی۔ 

اور وہ گمشدہ لوگوں میں بھی شامل ہیں جو ابھی شائد تباہ شدہ عمارتوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ یا مبینہ تھرمل بموں کے شدید درجہ حرارت سے بخارات میں تحلیل ہو چکے ہیں۔یہ سب بھی ایک قسم کے بنیاد پرست عقیدے سے لڑ رہے ہیں جو صرف ایک تہذیب، ایک نسل اور ایک پورے ملک کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ فلسطین کے مطابق ستر فیصد غزہ تباہ ہوچکا ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی تحقیقات کے مطابق تباہ ہونے والے علاقے اور ہلاک شدہ افراد کی تعداد کے اعداد و شمار کی روشنی میں اسرائیل کے کریہہ جنگی جرائم کے تحقیق اور جوابدہی کے لیے سنجیدہ کام کی ضرورت ہے۔ ویسے تو پاکستان میں بھی وکلا اور قانون دانوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن اسرئیل کے خلاف کیس کرنے جیسی صلاحیت ایک علیحدہ موضوع ہے۔ 

جہاں تک جنگی جرائم کی تحقیقات کا تعلق ہے اسکے بارے میں الجزیرہ کی آئی یونٹ کی بھی ایک نئی تحقیقاتی فلم تیار ہورہی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق پہلے لگتا تھا کہ ثبوتوں کی تحقیق میں جغرافیائی محل وقوع ۔مخصوص علاقوں کی شناخت کے لیے نقشوں وغیرہ کا استعمال - اور تصاویر اور ویڈیوز میں نمایاں فوجیوں کی شناخت کے چہروں کی اسکینگ وغیرہ کا کافی جھنجھٹ ہوگا اور وقت لگے گا۔ لیکن یہ قتل و غارت گری شائد اسرائیلی فوج کے لیے اتنی معمولی تھی کہ انہوں نے عوامی سوشل میڈیا پر ان پوسٹوں میں اپنے ناموں، چہروں اور کون سا واقع کب اور کہاں پیش آیا۔ کسی تفصیل کو بھی چھپانے کا تردد نہیں کیا۔ یعنی یہ خود فوجیوں کے فراہم کردہ ثبوتوں کے ذریعے ان کے جنگی جرائم کی تحقیق ہے۔I-Unit کے پاس 2500 سے زیادہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا ڈیٹا بیس اکھٹا ہوچکا ہے۔(الجزیرہ) 

میرل سٹریپ نے جن بدلتے اخلاقی معیار کا ذکر کیا اس کے تحت اسرائیل پر تو خیر کسی قسم کی پابندیاں لاگو نہیں کی گئیں لیکن جہاں تک افٖغانستان پر پابندیوں کا تعلق ہے۔ جنگ کے بدلتے ہوئے نقشوں کے تحت۔مجبوراً افغانستان کی ائیر سپیس سے گزرتی ہوئی بین الاقوامی پروازوں کی تعداد دگنی چکی ہے۔ کیونکہ بنیاد پرست افغان طالبان کی نسبت ”مڈل ایسٹ سے گزرنا اب زیادہ خطرناک ہے۔“ (روئیڑز) یہ صحیح بھی ہوسکتا ہے اسرائیل اپنے نئے ہتھیار عموما اسی علاقے میں ٹسٹ کرتا ہے۔ کئی بموں کے دھماکے کا درجہ حرارت 2,500-3000 سی تک ہوتا ہے۔ 

گلوبل وارمنگ کے سلسلے میں یہاں امیریکہ میں ہیلین کو مہلک ترین طوفان کہا جارہا ہے۔ (واشنگٹن پوسٹ) بلکہ کہا جا رہا تھا آج اب یہ اگلے طوفان ملٹن کو کہا جارہا ہے جو ٹیمپا فلوریڈا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہیلین طوفان کے نتیجے میں چھ ریاستوں میں بے شمار علاقے زیر آب آگئے جہاں ابھی تک امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔ بے شمار لوگ ابھی لاپتہ ہیں اور مکمل بحالی نہیں ہوئی۔ سب سے زیادہ متاثر شمالی کیرولینا میں ہوئی ہیں، جہاں تین دن سے کم عرصے میں 20 سے 30 انچ سے زیادہ بارش برسی۔اس مہلک طوفان میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہے 220۔ ملٹن طوفان میں صرف فلوریڈا میں ایک ملین لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے جنہیں فوری انخلا کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔ 

طوفان کی طاقت کا زیادہ تر انحصار ماحول کی گرمی اور سمندری حرارت پر ہوتا ہے۔ انتہائی گرم پانی ہوا میں بخارات کی مقدار میں تیزی سے اضافہ کرتا ہے جو طوفان کی شدت اور بارش کی مقدار میں ہیلین اور ملٹن کی مانند غیر معمولی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں سمندر کی گرمی میں ریکارڈ سطح پر اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ پانی زمین کی زیادہ تر اضافی حرارت بڑی مقدار میں جذب کرتا رہتا ہے۔ جو بالاخر ایسے طوفانوں کا باعث بنتا ہے۔ 

سوشل میڈیا پر موجود عام شہری موجودہ صورت حال میں غم و غصہ کے شکار ہیں۔ حکومت کے برعکس عام امریکی عوام غیر اخلاقی جنگیں جاری رکھنے، نہتے انسانوں کے قتلِ عام اور انسانی حقوق کی پامالی میں اپنے ٹیکس کے پیسے استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ ملک کو درپیش معاشی کرائسز اور شدید ماحولیاتی خطرات کی موجودگی میں وہ حکومت سے اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ اور امداد دینے کی توجیح مانگتے ہیں جبکہ یہ رقم خود امریکی عوام کو بھی بحالیات کی مد میں درکار ہے۔ اصل میں یہ ایک پیچدار دائروی مسئلہ ہے۔ افغانی عورت کے حقوق کا تحفظ فلسطینی بچے کی زندگی سے زیادہ ضروری ہے۔لیکن برٹش ایرویز کی فلائٹ سے کم۔ اور امریکی شہری دنیا میں ہر جگہ ان سب سے قیمتی ہے۔ لیکن گھر پر طوفان کا بندوبست اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ افغانی عورت کے حقوق کا تحفظ۔۔


۔

کوئی تبصرے نہیں: