ہر اہم چھٹی کے اگلے دن یہاں کے سٹورز میں اس موقع کے موسمی سٹاک پر سیل لگ جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف لوگوں کو یہ چیزیں کم قیمت پر میسر آجاتی ہیں وہیں دوکانوں کو پرانا مال سال بھر سنبھالنا نہیں پڑتا۔ نیز اگلے ایونٹ کے مال کے لیے جگہ بن جاتی ہے۔ لیکن عزم پاکستان سیل تو یوم آزادی سے ہفتہ پہلے ہی لگ گئی تھی۔ ویسے بھی بعد از یوم ہرے رنگ کے کپڑے کوئی کیوں خریدے گا؟ دوکانوں میں سیل لگنے کی چند دوسری وجوہات میں امیج ری برانڈنگ، نامقبول مصنوعات کی نکاسی، یا پھر رسد اور کھپت کا توازن بہتر کرنا بھی شامل ہیں۔
مارکیٹ میں عزم پاکستان کی رسد کی تو کوئی کمی نہیں۔ آپ باجوں کے شور کو دیکھ لیں۔ کپڑوں کے اشتہارات، جھنڈوں، ملی نغموں سے اندازہ لگا لیں۔ لیکن کیا اس کی کھپت میں کمی آ رہی ہے۔ کیا یہ پراڈکٹ نامقبول ہو رہی ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے نوجوانان پاکستان اب پاکستان میں رہنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ مجھے ویسے اس پر اتنا یقین نہیں ہے کیونکہ پچیس کروڑ لوگوں کی دلی ترجیحات جاننے کے لیے ایک عمومی سا سروے یا صرف ہمارے محلے والوں کی رائے تو کافی نہیں ہو سکتی۔
اپنی جگہ پیدائش سے عموما ہمارا رشتہ کچھ پیچیدہ ہوتا ہے۔ قریبا ویسا ہی جو ہمارا اپنے خاندان والوں سے ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی باتوں سے ہمیں اچھی خاصی کد ہوتی ہے لیکن پھر آخر میں ہم انہی میں مل بیٹھ کر سکھ پاتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک ملک ایک زمیں نہیں ہوتا بلکہ لوگوں اداروں اور نظام کا مرّقع ہوتا ہے۔ جیسے ایک گھر کا چین وہاں کے باسیوں کے ساتھ مل کر رہنے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے، حقوق اور فرائض کی نیک نیت ادائیگی سے اور کمزور ترین اکائی کی محفوظ پرداخت سے متعلق ہوتا ہے۔ ویسے ہی ایک علاقے کا امن اورشہریوں کی زندگیوں کا سکھ اس کے منتظمین اور باسیوں کی پیہم کوششوں میں چھپا ہوتا ہے۔
یہ انتظام مختلف درجات پر مسلسل جاری و ساری رہنا چاہیے۔ اس لیے معاشرے میں شعور والے لوگ نظام کی جانچ پڑتال میں مصروف رہتے ہیں کہ کہاں اس کے پہیے میں روکاوٹ پڑ رہی ہے۔ کہاں کاریگروں کی کارکردگی میں کوتاہی آرہی ہے۔ کہاں کام کی تکنیک اور اپروچ فرسودہ ہو گئی ہے۔ خام مال ناکارہ تو نہیں۔ پرزے کہن سال تو نہیں۔ سے مشینیں زنگ آلود تو نہیں ہو گئیں۔ یہ سوچنے اور جائزہ لینے والے لوگ اپنے متعلقہ شعبے میں بھی ہو سکتے ہیں اور عوامی تربیت گاہوں کا حصہ بھی۔ گھروں میں والدین کے بعد ہم انہیں ذرائع ابلاغ سے منسلک اداروں میں پاتے ہیں جیسے لکھاری اور صحافی۔ یہ انصاف کے ایوانوں میں منصف و وکلاٗ اور درسگاہوں میں استاد کے روپ میں ملتے ہیں۔ مختلف قسم کے وسل بلوئر جو ارادی اور غیر ارادی پس پردہ غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ اپنی تقریر اور تحریر، تقريظ و تنقید سے ہمہ وقت نظام کی تصحیح کرنے, اسے سنوارنے کی کوشش میں مشغول رہتے ہیں لیکن اگر یہ لوگ بروقت منتظمین کو نوٹس لینے پر مجبور نہ کر سکیں، اپنے فرض سے انصاف نہ کریں یا انتظامیہ جہل و جبر پر تلی ہو تو ایک وقت آتا ہے کہ پرانے پرزے خود بخود گرنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مشینیں بند ہونے لگتی ہیں۔ مال ناکارہ ہونے لگتا ہے۔ یہ تبدیلی ہی کی ایک قسم ہے۔ لیکن ایک باقاعدہ بلیو پرنٹ کے بغیر ۔ سو یہ تبدیلی نہ تدریجی ہوتی ہے نہ ہی مرحلہ وار۔ اور اس کے غیر متوقع نتائج اکثر معاشروں میں انسانی بہبود اور نشونما کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔
نظاموں میں تدریجی تبدیلی اور پرامن ارتقأ کا سرچشمہ فکر اور سوچ کی تازگی ہے۔ یہ نظریات کو عمل کی سان سے گزار کر روایت کی گود میں دیتے ہیں۔ روایتیں اور رواج ان نظریوں کو ہمیشہ اپنے جگر گوشوں کی طرح سنبھالتے ہیں لیکن ایک عمر کے بعد ہر شے کو زوال ہے۔ ہر سوچ کو خود سے بڑھ کر ایک سوچ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ انسانی نظریوں کی تو یوں بھی اوقات ہی کیا ہے، پچھلے دور کی دانش اگلے زمانے کی دقیانوسیت قرار پاتی ہے۔ لیکن آفاقی دانائی کو بھی علم کے نئے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے تو پرانی تشریح کی کند دھار نئی دانش کا سر بیچ بازار قلم کرسکنے پر قادر ہے۔
خیر ملک تو یہ بھی مسلمانوں کے نام پر ایشو ہوا تھا اور وقتا فوقتا اسلام کو اپنے مقاصد اور مفاد کے لیے استعمال بھی کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں اگر ہم سمجھتے ہیں اس مملکت خداداد کی نظریاتی کہن سالی ملکی ترقی کی راہ میں حارج ہے تو یہ جانچنا ضروری ہو جاتا ہے کہ مسئلہ آفاقی فلسفے میں ہے یا اس کی انسانی تشریح میں۔ منطق کی رو سے ایک خالق جو بیک وقت اول اور آخر ہے۔ اس کے علم کا کسی ایک دور میں پورا احاطہ کیسے ممکن ہے۔ ابتدا کی تاریخ کی کھدائی توتربیت یافتہ ماہرین قدیمہ کے ہاتھوں میں سونپی گئی ہے۔ مگر ابد تاب دانائی کی جدت کی تشریح پر ایسے لوگوں کو مامور کر دیا جو خود بھی کسی جدید علم اور ہنر سے آگاہ نہیں اور دوسروں کی آگہی کو بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر قابل تعزیر سمجھتے ہیں۔
ہم جب بھی محدود نظر اور محدود دماغ سے آفاقی نظریے کی تشریح کریں گے وہ ایک عام انسانی نظریہ کی طرح محدود ہوجائے گا جس میں تمام انسانوں کی بہبود، تحفظ اور پرداخت کی گنجائش نہیں ہوگی۔ جب نظام میں بنیادی انصاف اور مساوات ناپید ہوجائے تو اسے آپ ”اسلامی“ کہیں یا ”جمہوری“ فرق نہیں پڑتا۔ وہ اب صرف ”غیرانسانی“ کہلائے گا (”کیونکہ سنا ہے جنگلوں کا بھی ایک نظام ہوتا ہے“)۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ مالکِ کون مکان کی کتاب کو ہم تماثیل اورحکایات سے زیادہ نہیں سمجھتے مگر شاعری کے دیوان کو مشاہدہ حق کی دستاویز قرار دیتے ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ ہم بذریعہ شاعری مشاہدے کے منکر ہیں بس وہ یہ کہ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر۔۔وغیرہ۔۔
اور انسانی نظریے کا کیا ہے۔ کل گیا، آج نیا آگیا۔ اب یہی دیکھیں وطن عزیز میں ابھی تک جمہوری روایات کی بنیاد رکھی جارہی۔ جمہوری اصولوں کی پاسداری کی فکر میں گھلتے ہم باہم دست و گریباں ہوئے جارہے ہیں اور باقی دنیا گلوبل ووٹنگ کے بارے میں سوچنے لگی ہے۔ یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے ابھی ہم یہی سوچ رہے ہوں کہ کیا الیکشن میں دھاندلی ہوئی یا نہیں۔ سیٹیں دینی ہیں نہیں دینی اور دور کہیں آئس لینڈ میں کچھ ووٹ کاسٹ ہوں اور ہمارا انتخابی نشان تو معلوم نہیں کیا ہو لیکن ہم الیکشن ہار چکے ہوں۔ جلد ہی ہم الیکٹرونک ووٹنگ کے ذریعے قوم کا پیسہ بچانے میں بھی سب سے آگے ہوں گے اور انتخابی نظام مزید ”شفاف“ ہو جائے گا۔
بیشتر جمہوری نظام تو ویسے بھی علاقائی ریاستوں اور ذاتی جاگیروں کی گروہی سیاست کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہی ہے۔ چھوٹے علاقے کے چوہدری بڑے علاقے کے چوہدری کے حق میں دستبراد ہوجاتے ہیں اسے الیکٹورل کالج کہ لیں یا وڈیرے۔ اور ترقی یافتہ علاقوں میں یہ کردار کسی حد تک اب اقتصادی طور مضبوط کمپنیاں بھی سرانجام دیں گی۔ جہاں تک سوشل میڈیا کے ذریعے برپا ہوئے انقلابوں کا تعلق ہے تو خلق خدا کے راج کی مدت مختصر ہی رہی ہے۔ زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ یہی لوگ اپنے کندھوں پر نئے بت اٹھا لاتے ہیں۔ عزت سے سجاتے ہیں اور احترام سے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ وائرل پاپولیسٹ گروہ ورچوئل وڈیرے ہوں گے یا پھر ورچوئل بھائی۔ بھائی کے حلقے کے لوگ جانتے ہیں یہ کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے۔
موثر تبدیلی اور دیر پا ترقی کی کا بلیو پرنٹ مقامی ہوتا ہے۔ سیل پرپچھلے سیزن کے نظریات امپورٹ کرنے سے ہم ہمیشہ کیچ اپ ہی کھیلتے رہیں گے اور ہمارا آگے کا سفر طویل ہوتا جائے گا۔ لیکن مقامی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے تعلیم یافتہ اور باشعور عوام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کیونکہ قریبا آدھی آ بادی تو ناخواندہ ہے۔ ایک تہائی بچے رسمی تعلیم حاصل کرنے سے لاچار ہے۔ اور جو پڑھ بھی رہے ہیں وہ علم سے کوسوں دور ہیں کیونکہ سکولوں کا نصاب وقت سے پیچھے رہ گیا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں محققین کی بڑی تعداد موجودہ نظام تعلیم کی فرسودگی سے نمٹنے کی سفارشات مرتب کر رہی ہے۔ تعلیم سے متعلقہ تحقیق اور بذات خود تحقیق سے متعلقہ تعلیم کے بدلتے ہوئے طریقہ کار سے آگاہ ہوئے بغیر ایسا نصاب ترتیب نہیں دیا جاسکتا جس سے گزر کر عوام درست و نادرست خیالات میں تفریق لائق ہو جائے۔ موجود سے آگے سوچ سکے۔ اس کی سیاسی سماجی بصیرت بڑھ جائے اور وہ کھرے اور کھوٹے کے درمیان فرق کرسکے۔نیا نصاب مختلف سوچنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوگا تاکہ سوچ میں تنوع پیدا ہو۔ اور یہ ہم بھی کرسکتے ہیں۔ ایک آسان سا طریقہ تو یہ ہے کہ ہر ادارے میں چند ایسے لوگوں کو مختص کر دیا جائے جن کا کام ان کے شعبے کے لیے نت نئے خیالات سوچنا ہو۔
ہاں یہ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ہی کی بات ہو رہی ہوں لیکن ایسے بڑے لفظ استعمال کرنے سے لوگ کہتے ہیں بجٹ میں تعلیم اور تحقیق کے لیے مناسب فنڈ نہیں رکھے گئے یا پھر یہ کہ حکومت اس کام میں سنجیدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ تو نہ کرنے کے بہانے ہوگئے۔ سوچنے کا کام تو کم وسائل سے نجی طور پر بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ خصوصا ایسے ملک میں جہاں دوھیپی میل کی قیمت میں ایک انسان پورا دن کے لیے کام پر مجبور ہو۔ جہاں ایک برانڈڈ سوٹ کی قیمت میں مہینہ بھر کے لیے ایک بے زبان ملازمہ خریدی جا سکتی ہے۔ وہاں خاموش بیٹھ کر تحقیق کرنے اور آنکھ موند کر سوچنے والے اکھٹے کرنا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں