سوال ہے کہ ”اگر ہم خود میں اعلی اخلاقی محاسن کو پاچکے ہیں تو ہمیں طے شدہ اصولوں کے ایک مجلّے کی کیا ضرورت ہے جو کوئی اخلاقی ضابطہ ہم پر لاگو کرے۔ ہماری طرح دوسرے تمام بھی خود فیصلہ کرکے اچھے انسان بن سکتے ہیں (جیسے اگناسٹک)۔“ سوال کو مذہب سے الگ کرکے، محض اخلاقی بنیاد پر زیادہ آسان شکل میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں ہم نے بڑی سادگی سے اپنے ذاتی معیار کو اچھائی کے حتمی معیار متعین کرلیا ہے۔ ہم اس ذاتی معیار کا اکتساب اپنی تعلیم و تربیت، خاندان اور گردونواح سے کرتے ہیں۔ اور سمجھنے لگتے ہیں کہ میرا اور آپ کا ایک اچھے انسان۔ (اچھی اولاد، اچھے طالبعلم، اچھے دوست وغیرہ) کا تصور بالکل ایک سا ہے ۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو اصول میں نے ایک اچھے انسان کے طور پر خود پر لاگو کیے ہیں وہی آپ بھی خود پر لاگو کر لیں۔ جو حقوق میں نے اپنے لیے پسند کیے ہیں آپ بھی انہی سے اتفاق کریں۔ یہ ذاتی اخلاقیات کے فکری مغالطہ کی کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔ یعنی ہم کسی مشترکہ اخلاقی ضابطے کو اضافی سمجھ کر ہدایت کا مآخذ (اپنے) دماغ کو قرار دیتے ہیں اور پھر اس ہدایت کو مشترکہ قدر سمجھ لیتے ہیں۔
اس فکر کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ جب تک ہماری چھڑی ایک دوسرے کی ناک سے دور ہے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے نظریات کیا ہیں۔ ایک فرد کے طور پر ہم اپنی مرضی سے جینے کے لیے آزاد ہیں یا ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں ”مورل ریلیٹوازم“ یا اخلاقی اضافیت کا فلسفہ ہر نقطۂ نظر کو یکساں طور پر درست تسلیم کرتا ہے۔ گویا اخلاقی نظریات، سیاسی و مذہبی نظاموں یا ادبی و فنی نظریات وغیرہ کی کوئی طے شدہ شکل نہیں۔ ہر فرد اس کو اپنے اندر کی سچائی کے مطابق جانتا اور پہچانتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ یہ مکمل طور پر ہماری ذاتی پسند ناپسند کا مسئلہ ہے بلکل جیسے ہم کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں۔ کس قسم کا لباس پہنتے ہیں۔ کس کو ووٹ دیتے ہیں کس کو ان فرینڈ کرتے ہیں وغیرہ۔
فلسفیانہ طور پر یہ کوئی نیا اخلاقی نظریہ نہیں۔ لیکن کہ سکتے ہیں کہ براہ راست متعلق نہ ہونے کے باوجود آئن سٹائن کا نظرئہ اضافت (تھیوری آف ریلیٹوٹی ) اخلاقی اضافت کے وسیع عوامی تعارف اورمقبولیت کا باعث ہے۔ یعنی اگر طبعیات کے مادی اصول مختلف فریم آف ریفرینس میں تبدیل ہو سکتے ہیں تو پھر کوئی اصول بھی کامل، مطلق(ایبسولیوٹ) یا معروضی (اوبجیکٹو) نہیں ہے۔ بالخصوص میٹافزیکل یا مابعد الطبعیاتی فلسفے۔ یعنی علم اور اقدار ایک وقت اور مقام سے دوسرے اور ایک شخص سے دوسرے تک اپنے مفاہیم میں متنوع اور منفرد ہو سکتے ہیں اور مجرد نظریات کی کوئی طے شدہ تعریف یا معیار مقرر نہیں۔ ہر شخص اسکی تشریح اور اسکے مطابق عمل کرنے کے لیے آزاد ہے ۔ آج نظریاتی طور پر ہم کسی بھی ثقافت مذہبی یا سیاسی فلسفے سے وابستہ ہوں، ”اپنی اپنی سچائی“ ۔ ”نیکی اور بدی انسان کی سوچ پر منحصر ہے“۔ ” مگر مجھے میرا خیال یہ ٹھیک لگتا ہے“۔ وغیرہ جیسے بے شمار فقرے بے خیالی میں بول جاتے ہیں۔
مطالعہ کرتے ہوئے ، مووی دیکھتے ہوئے، انٹرنیٹ پر نظریات کی انفرادی تشریح ایک قابل عمل صورت حال ہے۔ یعنی ہم دوسروں سے اتفاق نہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں اور اپنی نظریاتی یا غیر نظریاتی چھوٹی سی دنیاوی جنت میں ہمیشہ خوش رہیں۔ لیکن اپنی آرام کرسی سے اٹھتے ہی ہماری زندگی میں دوسرے افراد یکے بعد دیگرے شامل ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو ہمارے ہر عمل سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوتے ہیں۔ اور جب بھی ہم اخلاقی تصور ات میں بنیادی مطابقت کے بغیر دوسروں سے معاملہ کریں گے ہم نظریاتی تصادم کا شکار ہوں گے۔ جب ہم دوسروں کو اپنے ذاتی معیار پر جج کریں گے تو انہیں غلط گردانیں گے، برا سمجھیں گے، رد کریں گے۔ یہاں ہمارے پاس دو راستے ہیں:
۱۔ ہم اپنے دائرہ کار کے ہر شخص سے مذاکرہ کرکے ایک ورکنگ ضابطہ طے کر لیں تاکہ حقوق اور فرائض کے بارے میں اختلافات نہ پیدا ہوں اور ایک پرسکون جیون ممکن ہو۔
۲۔ ہم ان اشخاص یا معاشرے کے کسی بھی شخص کے ذہنی خاکے سے بے نیاز ہو جائیں اور صرف اپنے اصول کے مطابق اچھے بنے رہیں۔ یعنی اگر آپ خود اچھے ہیں تو فکر کی کیا ضرورت ہے۔
ورکنگ رابطے کی حد تک ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والا عمل ہے جس میں ہم ہر روز کسی نہ کسی سے کسی شق پر الجھ رہے ہوں گے۔ دوسری طرف اگر ہم دوسروں کی سوچ سے بے نیاز ہو جائیں تو ہمیں دوسروں کو بھی یہی الاؤنس دینا پڑے گا۔ آپ تو خود اچھے ہیں۔لیکن اپنی تعلیم و تربیت کی روشنی میں میری اچھے اور برے کی پرکھ کا پیمانہ مختلف ہے۔ ہوسکتا ہے اپنی دولت اور رسوخ کی بنیاد پر میں خود کو زیادہ حقوق کا مستحق سمجھوں۔ میرے سماجی مرتبے کے تحت میں قانون کی پابندی یا فرائض کی ادائیگی سے بالاتر ہو جاؤں۔ یا آپکا معاشرتی ضابطہ میری اندرونی سچائی سے ہم آہنگ نا ہو۔ شائد آپ سزائے موت کے خلاف ہوں۔ پرو چوائس ہوں۔ چائلڈ لیبر اور گن کنٹرول کے بارے میں سخت قوانین کے قائل ہوں۔ ماحولیات کے بڑے داعی۔ لیکن آپ کسی اور کو اس سوچ کا پابند کیسے کرسکتے ہیں؟ اور آپ خاصے آزاد خیال بھی ہیں۔ آپ کہتے ہیں۔ ”ایگری ٹو دس ایگری۔ سچائی کی بہرحال بہت سی شکلیں ہیں۔“ آپ سچائی کی دوسری جانب سے مجھے غلطی پر دیکھتے ہیں۔۔ لیکن آپکو مجھے آزادی دینی پڑتی ہے کہ میں اپنے تباہ کن یا رجعت پسندانہ نظریات کو اپنے دائرے کار میں اختیار کرسکوں۔ یہاں بھی آپ میرا دائرہ کار طے کرنے پر مصر ہیں۔ مگر کیوں؟ شاید میری ذات سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے؟
انسان میں اخلاقیات کیسے پروان چڑھتی ہیں دیکھنے کے لیے مختلف عمروں کے بچوں پر کی گئی سٹڈیز سے سماجی سائنسدان سمجھتے ہیں کہ ایک بچہ پیدائشی طور پر مکمل اخلاقی ضابطے کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا لیکن اس میں یہ صلاحیت موجود ضرور ہوتی ہے کہ وہ ایک دیے گئے سیناریو میں اپنی عقل کے مطابق صحیح غلط کی تمیز کر لے۔ اور عمر کے ساتھ زبان کی طرح اخلاقیات بھی اس میں بتدریج پروان چڑھتی ہے۔ اور چند ہی سالوں میں وہ اپنے ضمیر اور ایمپیتھی کے ساتھ فئیرنیس اور انصاف کے ایک معروضی سٹینڈرڈ پر دیے گئے واقعے میں منصفانہ طور پر درست اور نادرست کو پرکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ بالغ افراد میں یہ پرکھ اندر کی آواز کے علاوہ دی گئی تربیت اوراپنے معاشرے کے ثقافتی اور گروہی اخلاقی رجحانات کے زیر اثر ہوتی ہے۔ جس کا ثبوت ہمیں مختلف علاقوں میں باہم متضاد اخلاقی روایات میں نظر آتا ہے۔ کچھ قبائل انسانوں کو کھاتے ہیں، کچھ جانوروں کو بھی نہیں کھاتے۔ وقت کے ساتھ انسان کے علاقائی رویے ان میں راسخ ہو جاتے ہیں۔
ارتقاٗ معاشرہ کی تحقیقات کے مطابق ثقافتی اخلاقی ضابطے کی طرف لوگ قدرتی میلان اور تعصب رکھتے ہیں۔ یہ ضوابط انہیں اپنے قبیلے یا گروہ سے جوڑتے ہیں۔ابتدا میں وہ مشترکہ مفاد کے لیے کام کرتے ہیں اور نتیجتاً گروہ کا تعاون حاصل کرتے ہیں۔ ان کا تعاون ان کی معاشرتی ساکھ اور اعتماد میں اضافہ بھی کرتا ہے اور معاشرے کی تنظیم اور ترقی کے لیے بھی سازگار ہوتا ہے۔ ایک طرف افراد ان اصولوں کو کردار سازی اور تربیت اور ترویج کے ذریعے انفرادی طور پر قائم کرتے ہیں اور دوسری طرف معاشرہ مجموعی طور پر اپنے ضروری اور کارآمد اخلاقی اصولوں کو قانون کی شکل دے دیتا ہے اور اس کی پائیدار بقا اور اطلاق کے لیے سزا اور جزا کے معیار مقرر کرتا ہے۔ عدم تعاون کی صورت میں فرد کو مختلف قسم کی سزاؤں یا معاشرے کی ان سے قطع تعلقی جیسے نتائج کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ اگر اخلاقی ضابطہ روایت سے بڑھ کر قانون بنے گا تو سزا بھی قانون کا حصہ ہوگی۔
یہاں ہم اس میں دوسرا سوال شامل کرتے ہیں۔ کہ ایک معاشرہ میں اپنے ہی لاگو کردہ قانون (مذہبی،اسلامی) کی بہت ہی بنیادی قانونی و اخلاقی شقوں کی خلاف ورزی کیونکر ہوسکتی ہے اور اس پر سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔خصوصا جب اس کے مبینہ ضابطہ اخلاق میں اس کی گنجائش ہی نہیں بنتی (جیسے پیڈوفیلیا)۔ پہلا سوال فرد کا معاشرے سے اخلاقی تعلق کی سمجھنا چاہتا ہے۔ اور دوسرا سوال معاشرے کا فرد سے اخلاقی تعلق کی وضاحت چاہتا ہے۔
فرد کئی وجوہات کی بنا پر معاشرتی (مذہبی) اخلاقی ضابطہ سے لا تعلق محسوس کرسکتا ہے مثلاً یہ کہ متعلقہ اخلاقیات فرد کی معاشرتی تربیت کا قابل ذکر حصہ نہیں ہے۔ یا فرد کے کردار کی ساکھ یا اعتماد میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ یا پھر یہ فرد کو ایک وسیع تر گروہ کا حصہ بننے میں معاون نہیں ہیں بلکہ کوئی متوازی نظام اس کو اپنے گروہ سے جوڑ رہا ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معاشرے کی تنظیم میں اس اخلاقیات کا کوئی با معانی کردار ہی نہ ہو اور وہ محض چند روایات کا مجموعہ ہی ہو۔ اس کے برعکس معاشرے کے فرد سے تعلق پر غور کریں تو صورتحال زیادہ عجیب ہوجاتی ہے۔ معاشرے میں لاگو قانون یا ضابطہ اخلاق اپنی شقوں کی خلاف ورزی پر سوال نہیں اٹھا رہا تو یا تو وہ بہت بنیاد میں اس اصولوں کو رد کر چکا ہے اور متوازی نظام پر چل رہا ہے، یا اس کے پاس اپنے قانون کے اطلاق کے لیے کوئی قابل عمل طریقہ موجود نہیں ہے، یا پھر قانون کی خلاف ورزی پر جوابدہی کا نظام ناکارہ ہوچکا ہے۔ موخر الذکر دونوں صورتوں میں معاشرہ میں تنظیم ختم ہو جائے گی، وہ نہ فرد کو ساکھ اور اعتماد دے سکے گا نہ ہی اس سے مشترکہ مفاد کا تعاون حاصل کرے گا۔
معاشرے میں مذہب کے کردار والے سوالوں کا جواب وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں معاشرہ کم از کم اخلاق کی بنیادی انسانی سطح پر محکم ہو۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو صرف پچھلے چند سالوں کے رپورٹ کئے گئے واقعات میں ہمیں ایک ریورس گئیر میں پھنسے معاشرے کے ضابطہ اخلاق کے تیزی سے گرتے ہوئے معیار کی نشانیاں ملتی ہیں جہاں قتل و غارت گری، انسانی حقوق کی پامالی، معاشی دہشت گردی، سیاسی کرپشن، نیکروفائل، پیڈوفائل ریپ ٹارگٹ کلنگ،اونر کلنگ یا سیکس ٹریفکنگ جیسے سماجی جرائم کے شکار مجبور افراد کو ہر طرح سے ظلم سہنا پڑ رہا ہے ۔ طاقتور اور ظالم ہر طرح سے پنپ رہا ہے۔ تربیت گاہیں کردار کی قابل عمل پرداخت سے معذور ہیں۔ منتظمین لاتعلق ہیں اور قانون اضافیت کا شکارہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی ارتقا کے ذریعے جو گروہ پیگن دور کے ابتدائی معاشروں سے آج اس شکل میں پہنچے ہیں کہ وہ مذہب کو غیر ضروری سمجھتے ہیں وہ انفرادی لیول پر انسانی اخلاقیات اور معاشرتی لیول پر جزا اور سزا کی تیز ترین منصفانہ فراہمی کا قابل اعتماد اور معیاری نظام قائم کر چکے ہیں۔ بنیادی تربیت اور انصاف کی ترسیل کے بغیر تو آئین اور دستور کے فرامین اور مذہبی مجلے محض کاغذ کا ڈھیر ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں