02 اگست 2024

ایل سی ڈی


ھیلتھ سائکولوجی کے زمرے میں کی گئی ہارورڈ بزنس سکول کی ایک رینڈم فیلڈ سٹڈی میں پایا گیا کہ لوگ اپنی جسمانی صحت سے متعلقہ صحتمندانہ رویوں میں لیسٹ کومن ڈینومینیٹر(مخفف ”ایل سی ڈی“) کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یعنی زیادہ فعال رکن کے برعکس ایک کم فعال ساتھی ان کے رویوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس سٹڈی میں ایک بڑی کارپوریشن میں لوگوں کے ورک ڈیسک کے ساتھ منسلک واک سٹیشن متعارف کرائے گئے تاکہ وہ چلتے پھرتے کام کرتے، کال وغیرہ سنتے، ضروری جسمانی ورزش کرسکیں۔ 

پھر کچھ کو صرف ان کے اپنے۔ یا ایک اور، یا چار ساتھی ورکرز کے ٹریڈمل استعمال کے ڈیٹا تک رسائی دی گئی۔ چھ ماہ سے زیادہ استعمال کے دوران جمع کیے گئے اعداد و شمار میں دیکھا گیا کہ کچھ لوگوں نے اس سہولت کا بالکل فائدہ نہیں اٹھایا۔ کچھ نے تھوڑا بہت کرکے چھوڑ دیا اور چھ ماہ کے آخر تک کم و بیش چالیس فیصد لوگ ہی ان سلو واک والی مشینوں کو استعمال کررہے تھے۔ جن لوگوں کو صرف اپنے ڈیٹا تک رسائی تھی ان کی نسبت زیادہ رسائی والے گروپ میں سب کی کاردگی کا رجحان ہمیشہ سب سے کم فعال رکن کی جانب تھا۔ 

اس سٹڈی کی بنیاد پر بہت سے قیاس اور ابتدائی نتائج اخذ کیے گئے مثلاً ہم عموما اپنے رویوں کوبہتری کے لیے نہیں بدلتے خواہ ہمیں ان میں ترمیم کے لیے مواقع اور اسباب دستیاب ہوں اور اس تبدیلی کو بہت آسان بھی بنا دیا جائے۔ پھر یہ کہ بہتر رویوں کو انجام دینے جو شعوری کوشش درکار ہوتی ہے اس سے بھاگنے کے لیے ہم وہ کام نہ کرنے والوں کی مثال اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ کہ ہمارے ساتھیوں کا طرز عمل ہمارے اچھے برے رویوں کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ اور دستاویزی ثبوت کے ساتھ پیش کئے گئے منفی محرکات مثبت محرکات کی نسبت زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ 

”بری“ مثال ہمیں کم بہتر رویوں میں مزید راسخ ہونے کی توجیح بھی دیتی ہے اور بد سے بدتر کی طرف ہماری راہنمائی بھی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ہم اپنے اچھے کام ترک کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سماجی بہبود سے متعلق ایک اور تجربہ میں دیکھا گیا کہ رضاکاروں کے ایک گروپ میں لوگ مسلسل مصروف عمل رہے کیونکہ کوئی بھی پہلا تارک نہیں بننا چاہتا تھا۔ لیکن جونہی انہوں نے ایک شخص کو رکتے دیکھا بہت سے لوگوں کو معقول بہانہ مل گیا۔ 

دوسری طرف یہ ہیلتھ سٹڈی بجلی کے صارفین سے متعلق ایک مطالعہ کی بنیاد پر قیاس کرتی ہے کہ لوگوں کو صرف اعلی کارکردگی اور صرف ہائی پرفارمرز کے ڈیٹا تک رسائی دی جاتی، یا بے نام اعداد و شمار شیئر کیے جاتے جہاں وہ ایک انسان کی بجائے ایک معیار سے مسابقت کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ نتائج مختلف اور بہتر ہوں ۔ دوسری طرف اپنے ساتھیوں کی مثبت حوصلہ افزائی اور سپورٹ سے کچھ لوگوں کے لیے عادت میں تبدیلی اور بہتری کی کوشش زیادہ عرصے تک جاری رکھنا ممکن رہا۔ لیکن یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ 

اوپر کی تحقیق میں ”لیسٹ کامن ڈینومینیٹر“ یا ایل سی ڈی کا ٹیگ انہوں نے سب سے کم کارکردگی والے ورکر کو اسائن کیا۔ اسی طرح سماجی گروپ میں ایک سب سے بنیادی یا سادہ سطح کی سمجھ یا طرز عمل کو ہم یہ ٹیگ دے سکتے ہیں۔ کسی بھی دیے گئے گروہ کی عمومی اکثریت اس قسم کی سماجی فکر، گروہی نفسیات یا معاشرتی رویہ کو یکساں شیئر کرتی ہے۔ یعنی یہ وہ رجحانات ہیں جو بلا تخصیص، کسی پیچیدگی یا گھمبیرتا کے بغیر زیادہ تر لوگوں کے خیالات اور اقدار کو اپیل کرتے ہیں۔ 

اس کی ایک وجہ شائد یہ ہے کہ ہم میں سے قریبا ہر ایک اپنے علم، سماجی مقام و درجے، عمر اور شخصی انفرادیت کے باوجود اندر سے فطرت اور باہر سے معاشرے کے بنائے ڈیزائن سے بندھا ہے۔ مثلاً ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں غیر مشروط قبول کیا جائے۔ محبت دی جائے اور خیال رکھا جائے اور اگر ہم ماحول سے مزاحمت نہ سیکھیں تو یہی فطری محبت اور خیال ہم اپنے اطراف کو ویسے ہی واپس لوٹاتے ہیں۔ گو جیسے ریاضی میں ہر نمبر کے اوصاف ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح تمام انسان بھی ان صفات کے مجموعہ کا ایک مختلف اور منفرد مرکب ہوتے ہیں سوائے ان بہت بنیادی خواص کے جو ہم تمام انسانیت سے عموما اور اپنے معاشرے سے خصوصاً شیئر کرتے ہیں۔ 

ہماری فطرت کی یہ بنیادی کڑی اب ریاضی کے ایک فارمولے کی طرح اقتصادی ماہرین، سماجی مصلحین، میڈیا منتظمین کی میزوں پر کھلی کتاب کی طرح دھری ہے۔ مارکیٹ میں ہمیں دستیاب اشیائے صرف سے لیکر بیسٹ سیلر کتابوں تک۔ یا ہم کھانے میں کیا کھائیں گے سے ہم تفریح میں کیا دیکھیں گے سب کا سب چند بلٹ پوائینٹ میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اور اگر اس کو پڑھنا آسان ہے تو اسے لکھا بھی جاسکتا ہے۔ ویسے تو اب اسے خود لکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اے آئی سے آٹو جنریٹ کیا جاسکتا ہے۔ 

آٹو جنریٹ کے پس منظر میں امیریکن آرکیٹیکٹ بکمنسٹر فلر کی کتاب ایجوکیشن آٹومیشن (1962) سے کچھ تخلیص ملاحظہ کریں: 

ہماری یونیورسٹیوں میں محققین کو (مستقبل میں) سالہا سال ایک سے لیکچر نہیں دینے ہونگے اس کی بجائے ان استادوں کا صرف پہلا لیکچر(لائو آڈینس کے لیے) ہوگا جوموونگ پکچر کی طرح ریکارڈ کر لیا جائے گا۔ پھر وہ پروفیسر ان کو دوبارہ سہ بارہ دیکھ کراپنے کام کو بہتر سے بہتر بنائیں گے (یعنی کٹنگ ایڈٰٹنگ ری۔ مکسنگ وغیرہ) اور پوری یونیورسٹی کا شعبہ اس ایک پیغام اور تصور کو بہتر بنانے پر کام کرے گا۔ 

جیسے ایک دن ہم آئن سٹائن کا "تھیوری آف ریلیٹیویٹی“ جیسا موضوع لیتے ہیں پھر اس موضوع کے "آئنسٹائن" اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ایک سال تک کام کرکے ہم آخر کار اسے اس موضوع میں "نیٹ" تک کم کر دیں گے۔ جو اصل لیکچر دینے والا بھی اپروو کردے۔ اور نیٹ کیا ہے؟ یہ اتنا فصیح ہے کوئی بچہ بھی اپنے دستاویزی ڈیوائس مثلا ٹی وی کو آن کرے اور آئن سٹائن کی سوچ کو سراحت سے سمجھ جائے۔ 

ان ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ لیبارٹریز کی فیکلٹی غیر معمولی متحرک تصویری دستاویزی فلموں کی پروڈیوسر بن جائے گی۔ یہ ایک بڑا، نیا تعلیمی رجحان بننے جارہا ہے جس میں دستاویزی فلمیں مختلف ذرائع سے تقسیم کی جائیں گی۔ ان دستاویزی فلموں کی عظیم لائبریریوں کے بڑے بڑے مرکزی ذخیرے ہوں گے جہاں سے ایک بچہ محض اپنے ٹی وی سیٹ پر مقامی طور پر ایک خصوصی پروگرام کی معلومات طلب کرسکے گا۔ (جو موضوعاتی، جدلیاتی یا ترتیب تہجی سے دستیاب ہوں گی) وہ کسی بھی موضوع کے بارے میں کسی بھی قسم کی تازہ ترین مستند معلومات حاصل کرسکے گا۔ ہر شخص کے پاس اپنے سوالات کے جواب میں تاریخ میں اس منٹ تک دستیاب بہترین معلومات اور تحقیق دستیاب ہوگی۔ 

فلر موونگ پکچرز پر مبنی ”انقلابی“ تعلیمی رجحانات اور موضوعاتی اور جدلیاتی ترتیب سے دستیاب ”غیرمعمولی“ دستاویزی فلموں سے تعارف حاصل کرنے سے پہلے ۱۹۸۳ میں اس جہان فانی سے گزر گیا لیکن ایجوکیشن آٹومیشن کا سفر جاری ہے۔ ایک مفکریا دانشور ہمیشہ ماضی کو پرکھ کر، حال کو جانچ کر، مستقبل میں جھانکتے ہوئے اپنی بلند فکری سے عوام کے خیال و نظر کو سنوارنے میں مصروف رہتا ہے ۔ یہ اس کی فطری مجبوری ہے کہ وہ اختلاف اور عدم اعتماد سے ڈر کر اپنا نظریہ نہیں بدلتا۔ وہ خیال کی کم سے کم سطح کو مرکز مان کر قلم نہیں اٹھاتا کیونکہ وہ جانتا ہے اسکا یہ عمل معاشرے کی سوچ کے بہاؤ کو افکار کے نشیب میں اترنے کا بہانہ و غایت مہیا کردے گا جہاں سے اوپر اٹھنا قریبا ناممکن ہے کیونکہ انسان بہتری کی جانب ہمیشہ کم فعال ہوتا ہے۔ 

لیکن میرے یہ مسائل نہیں ہیں۔ مجھے بہرحال اس معاشرے میں رہنا ہے۔ کیا امن کے قیام اور سماج کی ایکتا کے لیے کلمہ حق بلند کرنے کی بجائے اکثریت کے نقطہ نظرسے اتفاق کرلینا بہتر نہیں؟ اور میرے احباب خیالات، نظریات، بلند فکری دانش وغیرہ جیسی کتابی باتوں سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں تفنن برطرف۔ یہ بتائیں آپ کو آج کے ٹرینڈنگ ٹاپک کے بارے میں بھی کچھ معلوم ہے؟ اور وائرل میمز اور سب سے مشہور سٹوری۔ میرے لیے بہرحال ان کی پسند و ناپسند اہم ہے۔ سوچ میں ہوں کیا لکھوں۔۔ ہر دل کی آوازز۔ اورموضوعات کم نہیں۔۔ ماحولیات۔ جنگ۔ امن۔ امریکی سیاست۔ انسانی حقوق۔ عدم مساوات۔ قحط۔ خشک سالی۔ مفلسی۔ فوج، عدلیہ، سیاستدان۔ معاشرتی جہالت۔ جنسی حیوانیت۔ خانگی تشدد۔ قحط الرجال۔۔ عورت۔۔ عورت۔۔۔ اوہ یس۔ لیکڈ 
ویڈیوز۔



کوئی تبصرے نہیں: