25 مارچ 2024

کنگ ڈم آف اسلامی جمہوریہ پاکستان

پشتینی حکمران اپنے اپنے تخت سے شاہانہ اندازوں میں اسمبلیوں میں اترتے ہیں ۔ اپنی مقبولیت معقولیت اور مسابقت کے مشق شدہ عاجزانہ اور دوستانہ اعترافات اور مخالفین کو متواضع تعاون کی یقین دہانیاں کراتے ہیں۔ لیکن زیادہ دیر نہیں لگے کی کہ ان کے کھوکھلے لفظوں کی حقیقت ان کے اقدامات سے واضح ہو جائے گی ۔ پھر وہ مسائل کے ان انباروں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جن کو لوگ کئی دہائیوں سے اپنی جان پر سہتے آ رہے ہیں۔ اس پپٹ شو پر دیکھنے والے کو نہ ہنسی آتی ہے نہ رونا ۔ غصہ آتا ہے لیکن غاصبوں پر نہیں۔ بلکہ ان پر جو جانتے بوجھتے ان کو شیرے میں ڈبو کر بیچتے ہیں۔


اکثر لوگ الیکشن کے نتائج کے بعد سے عجب غائب دماغی کا شکار ہیں۔ کچھ کو تو نئے وزرأ کے بارے میں خبر نہیں ہوئی جیسے پراگندہ خیالی تلے ایک چپ سی طاری ہو گئی۔ اور کرنے اور کہنے کے لیے کچھ نہیں رہا۔ اور کچھ ہیں جو اب غیر یقینی سیاسی فضا، گرد آلود ہوا اور ناکام جمہور کے بارے میں تجربہ کار تجزیوں اور تبصروں سے دل کو مصروف کار رکھنے یا بہلانے کے پیرائے تراش رہے ہیں۔ اور پھر کچھ رسم دنیا بھی ہے ۔موقع بھی ہے اور دستور بھی۔ کیونکہ نئی چوٹیں پچھلے شکستوں کا درد تازہ کر دیتی ہے اور دیر تک وہ خلش وجود سے چپکی رہتی ہے۔


اس لیے دستور کی دانستہ غلطیوں، استبدادی قوتوں کے استحصال، تاریخ کے مسخ شدہ حقائق اورجغرافیہ کے عتاب پر بحث چھڑ گئی۔ اور پھر اگلی بحث ستر سال سے حکمرانوں کی نااہلی اور لیڈر شپ کے فقدان پر ہونی ہے۔ اور پھر اگلی بحث پاکستان بنائے جانے کی تاریخی غلطی پر ہوتی ہے اور پھر اگلی بحث ہندوستان سے کھلی تجارت پر ہونی ہے پھر اگلی بحث چین و ایران پر ہونی ہے اور پھر اگلی بحث ٹو سٹیٹ ۔۔ خیر ابھی اس بحث کو چھوڑیں۔ اور موجودہ حکمرانوں کی کارگردگی پر جوبحث ہونی ہے اس میں تو ابھی بیس تیس برس باقی ہیں۔ خیر چھوڑیں کون جیتا ہے ۔۔


کہنے والے پاکستان کو اقبال کا خواب بھی کہتے ہیں۔ اور قائد کو اس کا سپاہی۔ ستر سال میں بتدریج ہم نے سپاہی کے فرمودات کو اصل خواب کے متن سے الگ کرکے بڑی محنت سے اس سب کو ایک چھوٹے سے چھپڑ میں بدلا ہے۔ چھپڑ کو گدلا ہونا ہی ہوتا ہے کیونکہ نکاسی کوئی نہیں ہوتی۔ بہاؤ اور بے کرانی سمندر کا مقدر ہوتی ہے۔ مگر ہمیں سمندر سے ڈر لگتا ہے ۔لگنا بھی چاہیے۔ وہ وسیع ہے گہرا ہے۔ اقبال کا خواب گویا گہرےسمندر کا سفر تھا جو ذہنی بیداری جسمانی مہارت روحانی مشقت کا متقاضی تھا ۔نئی بننے والی نیشن سٹیٹس کے لیے ایک مرکز جس کا وعدہ ہو کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی جہاں انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں روادار اور عادل اسلامی معاشرے میں گزاریں گے۔


ہر جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے۔ جس پاکستان کو ہمارے بزرگان اپنی سیاسی تنہائی سماجی بے بصری و عسکری ضعف میں پیچھے چھوڑ آئے تھے اسکے موجودہ حالات و واقعات انکی سزا کا ذکر علیحدہ باب میں ہے۔ اور جس پاکستان کے لیے دو قومی نظریہ کی تپش اور آزادی کے پر فریب نعرے کی لپک سے بے تاب ہوکر کڑوروں لوگ اپنے بھرے پرے گھروں سے خالی ہاتھ یا پاپیادہ نکل آئے تھے ان کی سزا کی داستان الگ ہے۔ ان کی زندگی کسی اور قرض کے لیے گروی رکھی گئی تھی مگر کسی اور ادائیگی میں صرف ہوئی ہے ۔ان عزت جان اور مال کی قربانیوں کی بے قدری کیوں ہوئی؟ کیا ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا یا وہ غلطی پر تھے؟؟  سوال تو آسان ہیں لیکن جواب دینے کے لیے مورخین نے کتابیں لکھ رکھی ہیں ۔ کچھ سمجھتے ہیں، باقی کچھ نہیں سمجھتے۔


کچھ لوگ سمجھتے ہیں ملک اور قوم کی بقا کے لیے چنیدہ لیڈران کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ خواہ وہ نام کے ہی ہوں ۔ ایسے ہی سمجھدار لوگ سیاسی بالشتوں کو بصیرت اور دانش کے موتیوں سے گندھی تقاریر لکھ کر دیتے ہیں گو اکثر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پرفارمر ان لفظوں کا صحیح تلفظ ادا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ کبھی تو وہ اپنے ہی الفاظ کا آسان خلاصہ بھی تحریر کرتے ہیں۔ جسٹ ان کیس۔ جاننے کو تو سبھی جانتے ہیں کہ پس آئینہ کوئ اور ہے مگر وہ اس سچ سے آنکھیں چرا لیتے ہیں۔ کہ شائد اس مصلحت کوشی سے اس ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے گا۔ شائد سچ چھپا لینے سے مصیبت کو برداشت کرنا آسان ہو جائے گا۔ آج تک سچ چھپانے سے صرف جھوٹ کو فائدہ پہنچا ہے۔ صرف دھوکہ پنپتے دیکھا ہے۔


اکثر لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ جمہوری تسلسل آپ اپنی تصحیح کرنے پر قادر ہے۔ شائد ایک دن یہ شہزادے شہزادیاں خود ہی اپنے اپنے محلوں کو لوٹ جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا وغیرہ۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب لیڈر اپنی ذات میں خیال اور نظریات کے لحاظ سے بالشتیا ہوگا تو وہ اپنی راج نیتی میں کسی کو خود سے بلند نہیں ہونے دے گا۔ دانشور اور اختلاف رائے رکھنے والے ہی عموما ان کے پہلے شکار ہوتے ہیں۔


دانشور کی ہار یوں بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے لفظوں اور نظریات سے عوام کی تربیت کرتا ہے۔ لیکن کوئی آپشن نہ ہونے پر وہ ایسی قابل یقین روایتیں رقم کرنے لگتا ہے کہ سر نہ اٹھا کر چلنے کی رسم جڑ پکڑ لیتی ہے اور ہم تو ویسے بھی ایسے ڈیلٹا کے باشندے ہیں جہاں ساگ روٹی ، چاٹی کی لسی اور نیم کی چھاؤں میں استراحت کے بعد زندگی کی دیگر خواہشات محدود رہ جاتی ہیں۔ ہر مزاحمت بتدریج دم توڑ جاتی ہے۔ دانشور کی بے اعتنائی اور نظریے سے بے وفائی جب انصاف اور آزادی کی علمبرداری کے لیے نکلے لوگوں کی کاوش کو بے سود اور رائگاں لکھتی ہے تو  بے چارے شمع برداروں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے شائد وہ ہی غلطی پر ہیں۔


کچھ احباب کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی بہر صورت سٹیٹس کو کے خلاف ایک اہم آواز ہے۔ یعنی کنگ ڈم آف پاکستان میں ایک تبدیلی اور آزادی کی آواز جو ستر سالہ حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں سے بے زار ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کے دماغ کی آزادی اس کے علم سوجھ بوجھ اور نظریات کی آزادی سے وابستہ ہوتی ہے۔ نظریات تب آزاد ہوتے ہیں جب انسان بڑے کینوس پر سوچنا اور سمجھنا سکھتا ہے۔ عالمی نظریات کے تقابلی جائزے اس کی متوازن سوچ کی بنت میں مددگار ہوتے ہیں۔ ایک لیڈر یا ایک شخص کو فولو کرنے کا مفہوم نا تبدیلی ہوتا ہے اور نہ ہی آزادی۔ کیونکہ اکثر اوقات ہماری طلب وہ ایک شخص ہوتا ہے جونہیں ملتا تو ہم دعا اور سوال دونو بھول جاتے ہیں۔


ممکن ہے آپ اتفاق کریں کہ ہماری طلب ایک شخص یا ایک پارٹی کبھی نہیں تھی اور نہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایک کلمہ اور عقیدہ ہمارا نظریہ اور منشور ہے۔ کسی فصلی شہنشاہ کے ہاتھ میں نہیں کہ ہمیں ہماری دعائیں اور سوال بھلا سکے۔ دعا ہے کہ یا رب پاکستان کی خیر ہو اور اس کے ذریعے عالم اسلام کی خیر ہو اور اس کے ذریعے دنیا کی خیر ہو اور اس کے ذریعے اس کائینات کی خیر ہو جس کا تو نے ہمیں خلیفہ بنایا ہے ۔بے شک ہر سو تیری ہی بادشاہت ہے۔ اور ہاں سوال ہے کہ (کنگ ڈم آف اسلامی جمہوریہ )پاکستان کا مطلب تو چلو لاالہ الا اللہ ہے۔۔ لا الہ الا اللہ کا مطلب کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: