07 فروری 2024

مائی آل سیزن مسلم ایپ


ایپ، تمام واقعات اور کردار فرضی ہیں] 
مسئلہ ان آنٹی کا ہے جن کا نہ صرف حافظہ بلا کا ہے بلکہ انتظامی امور میں بھی وہ سب سے بہتر ہیں۔ ان کی حلوہ پوری محلے میں سب سے پہلے بانٹنے کو نکل آتی ہے۔ موقع کے حساب سے تمام محافل کے وعوت نامے بھی بروقت لوگوں کو واٹس ایپ ہو جاتے ہیں۔ ختم میں ستائیسواں اور اٹھائیسواں آپ کے بولنے سے بھی پہلے خود بڑھ کر لے لیتی ہیں۔ دوسری خاتون کو ان بدعتوں سے شدید سے چڑ ہے۔ وہ اپنے دین اور دنیا کو داؤ پر لگانے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوتیں۔ ان بٹی ہوئی سوغاتوں کو ہاتھ نہیں لگاتیں محافل میں شرکت سے گریز کرتی ہیں۔ختم کے دو پارے بھی آپ انہیں اسائن نہیں کر سکتے۔ 

عوام کی پوچھی جائے تو ہر خاتون جو ابھی مردم بیزاری کے اس درجے تک نہیں پہنچی جس میں انسان کو آئینہ سے کد ہوجاتی ہے۔ ہر وہ جو گھر کی مشقت سے دو گھنٹے کی چھٹی مع سنیک کو غیبی امداد تصور کرتی ہے اور برکتوں کی ٹوکری کو بونس۔ جس کی سماجی تعلق کی بنیادی انسانی ضرورت محض اسی محفل سے پوری ہو سکتی ہے ۔ بدعت کا یہ فلسفہ اس کے لیے پوری طرح قابل فہم نہیں ہے ۔بھئی جب سب کر رہے ہیں۔۔ ویسے اللہ غفورالرحیم ہے۔ لیکن ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ اتنی مصروف زندگی میں دِنوں کا شیڈیول کچھ آگے پیچھے ہو جاتا ہے۔ پہلے پتہ ہوتا تو بندہ اچھا والا سوٹ ہی ریڈی رکھتا ہے۔ اور پھر باقی میچنگ چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ 

پھر یہ سوال بھی ہمارا دامن پکڑ لیتا ہے کہ بندہ کون سے دن منائے اور کون سے نہ منائے۔ بدعت سے بھاگنے والوں کے برعکس یہ سوال ان موڈریٹ لوگوں کے ذہن میں بھی اٹھنا ہے جن کے اباؤ اجداد نے ان تکلفات سے بہت عرصہ پہلے جان چھڑا لی تھی اور وہ کلچرل کے اس پہلو سے نابلد پروان چڑھے ہیں۔ مذاق مذاق میں ہم نے ایک خاتون سے پوچھا جن کی معلومات کا ذخیرہ عوامی مذاہب وتواریخ کے بارے میں وسیع ہے۔ انہوں نے جاننے والوں کی لسٹ گنوائی جن کے مسالک کی ناموں میں حروف تہجی کے تمام اراکین کی مناسب نمائیندگی ممکن بنائی گئی تھی خواہ وہ ا ہو یا و یا ح سب کو ملا نہ لیں۔ تو زیادہ پارٹیز ۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے رائے دی تو ایک حوصلہ افزا۔ فنکارانہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی۔ 

بہرحال ان تمام معلومات کا کوئی قابل بھروسہ ذخیرہ ہونا چاہیے۔ اسی لیے میرا ووٹ آل سیزن مسلم ایپ کے ساتھ ہے۔ سب سے پہلے تو اس میں خاص خاص دنوں کی مخصوص عداوتیں نہیں عبادتیں الگ الگ کر کے دی گئیں ہیں۔ پھر اس میں خصوصا پاکستان کے حوالے سے ان تمام کھانوں اور رسموں کی تفاصیل ہیں جن کے بغیر اہم دن کبھی بھی صحیح طرح منانا ممکن نہیں ہے۔ رمضان اور عید سے متعلقہ پکوانوں کی ریسپیز کا ایک پوراسیکشن ہے۔ بلکہ نیچے ان کے آزمودہ (واقف ؟؟) کیٹرنگ والوں کے لنک بھی ہیں اگر کسی کو ارجنٹ میں حلوے کی دیگ وغیرہ پکوانی ہو۔ 

ہر موقع کے لحاظ سے ہماری تمام تر ضروریات کو ایک جگہ پر اکھٹا کرنے کا سہرہ اسی ایپ کو جاتا ہے۔ رمضان کے لیے اکثر بچوں کے لیے کلرنگ بک کی ضرورت پڑتی ہے وہ یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہے۔ تمام اہم معلومات کے تخلیص شدہ خلاصےرین بو کارڈز کی شکل میں موجود ہیں۔ اگر آپ ایک مہینے میں بچے کو ہماری آفاقی کتاب کے تمام اسباق ازبر کرانا چاہتے ہیں تو پی ڈی ایف سیکشن سے سپرسمال قاعدہ یا تیس۔ میں ۔تیس والی فائل ضرور ڈاؤنلوڈ کریں۔ اس کے علاوہ اس میں گھر کی (کرسمس اور ہولی انسپائرڈ) اسلامک کلچرل ڈیکوریشن کے نت نئے آئڈیاز دیکھ کر آنکھیں اور دماغ دونوں روشن ہوجاتے ہیں۔ یعنی وہ چیزیں جو ممکن ہوسکتی تھیں لیکن ہمیں معلوم نہیں تھیں۔ 

اور ابھی تو میں نے صرف بتانا شروع کیا ہے۔ تمام فیچر تو اس مضمون میں آبھی نہیں سکتے۔ صدقات کے تمام ممکنہ مواقع۔ موسمی آفات کے لحاظ سے چندے کی اپیلیں۔ زکواة لینے والے ویب سائیٹ۔فطرانے کا حساب۔ عیدکی سیلیں۔ مہندی چوڑی، حج اور عمرے کے سستے پیکج۔ میلاد کی پہاڑیوں کے اشتہارات، نویں دسویں کے تمام تر ایونٹس۔ قسطوں پر بکرے۔ آپکی قربانی اور کھالوں کے انتظام کرنے والے بے لوث ادارے جو گھر پر پیکٹ پہنچا جاتے ہیں۔ اور اگر آپ زیادہ ایڈونچر پسند ہیں تو بکرمنڈیوں کے اپڈیٹس۔ قیمتوں کے تقابل۔ آن لائن مفتیان۔ 

دوسری خاتون کہتی ہیں یہاں تو صراط مستقیم کو بھی کنزیومرازم کی نظر کیا جا رہا ہے۔ میں کہنے کی کوشش کرتی ہوں کہ صحیح لفظ شائد نذر ہے۔ اور آپ کیوں نہیں سمجھتیں کہ ایک گڈ لکنگ اسلامی کلچر ہماری کتنی بڑی ضرورت ہے۔ ہماری سادگی کی وجہ سے ہمیں باقی دنیا کے لوگ کیا سمجھتے ہیں؟ لیکن ان کا تو فلسفہ ہی الگ ہے وہ کہتی ہیں آل سیزن عقیدہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان کسی دن بس ایک ٹاپک کو پکڑ لے اور پھر دیر تک ہر ایک کی حقیقی اور ورچوئل سمع خراشی کرنا شروع کرتا رہے۔ بلکہ یہ کہ انسان ہر موسم میں اپنے عقیدے پر یکساں طور پر جما رہے اور روز تھوڑا تھوڑا مستقل عمل کرتے ہوئے ہر روز بہتر ہونے کی کوشش کرے۔

وہ تو اسلامی ثقافت کو بھی کچھ اور ہی سمجھتی ہیں۔ جس میں وہ رواداری، امداد باہمی اورخوش خلقی کو خوش اطواری (برانڈز والی)، باہمی ملاقاتوں(میلاد والی) اور صدقہ اپیلوں(سیلاب والی) سے اہم سمجھتی ہیں۔ میں نے انہیں بتانے کی کوشش کی کہ یہ تو ان کا ذاتی معاملہ ہے جس پر وہ کچھ ناراض ہو گئیں۔ پھر میں ان سے مزید بحث نہیں کی۔ اچھا ویسے اور کس کس نے مذہبی چھٹیوں والے سپیشل اخباری ایڈیشنوں سے دینی تعلیم حاصل کی ہے؟

کوئی تبصرے نہیں: