17 فروری 2020

جب تم منزل پہ پہنچو گے

جب خزاں رت زرد چہرہ لیے مجھ کو ملنے آئے گی
جب پتے سرد ہواؤں کے خوف سے پیلے ہو ہو کر
باغ میں ہر سو بکھریں گے
سارے پیڑ تشنہ لبی سے رفتہ رفتہ سوکھیں گے
تم اپنی منزل پہنچو گے
میں تم کو یاد کروں گی اور خزاں سے ہاتھ ملاؤں گی۔

_________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

22 اپریل 2019

ناسٹلجیا

میں خود کو کتنا بھی روز مرّہ کے سانچے میں ڈھالوں
حقیقت پسندی سے جینے کی کتنی بھی کوشش کرلوں
تمہارا تصور ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے
مجھ سے بات کرتا ہے۔

_______________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

12 فروری 2018

وہ دن آج کی مانند نہیں تھے


تجھے ملنے سے پہلے ۔ ۔
صبحیں اور شامیں بالکل ایک جیسی تھیں
شفق کے رنگ مدہم تھے
پرندے شور کرتے تھے
راتیں سب کی سب خاموش ہوتی تھیں
بہت بےکار سی دنیا تھی یہ اس لمحے سے پہلے
جب آرزو نے دامن دل تھاما تھا۔



مکمل نظم کے لیے کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان


13 مارچ 2017

تمہاری آنکھیں

تمہاری آنکھیں کوئی کائینات ہیں
جس میں کوئی انجانی دنیا منجمد ہو۔
یا کوئی سمندر۔
جس میں انسان گم ہو گیا ہو۔
یا محبت کا صحرا۔
جہاں اک معجزہ رقم ہو رہا ہو۔
یا کوئی راستہ۔
جو خلا سے تمہارے دل تک جا رہا ہو۔

مکمل نظم کے لیے کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان