13 ستمبر 2016

خامشی بے یقینی نہیں ہے

 
خامشی بے یقینی نہیں ہے
راستے بدلتےہیں۔
اور ہم اچھی امیدوں کو منزل مان کر
اچھی امیدوں ہی کے کے نشانے پہ بندھے
خوف سے اندھیروں میں دیر تک جاگتے رہتے ہیں۔

ان دیکھے راستے ، ادھوری باتوں کے آخر میں ان لکھےہوئے لفظوں کی طرح۔
بے یقینی کے پرتو میں لپٹا ہوا وعدہ ہیں
اور ہم جانتے ہیں ان لکھے بے یقین وعدے بے سود ہیں۔
ہاں لکھے ہوئے وعدے، کہ ان کا وجود ہمارے یقین سے بندھا ہے۔
ہمارے لیے ڈھونڈتے ہیں جانے ہوئے راستے۔

راستے بدلتے ہیں
اور ان کہے لفظوں کی بے تابیاں۔
بے یقینی کی لے پر کچھ اور بڑھ جاتی ہیں۔
اور ہم دیر تک جاگتے، امیدوں کو منزل بنا کر اندھیروں میں راستہ ڈھونڈتے ہیں۔

نئے موڑ کی جدائیوں، بے معانی ضابطوں سے ایک نیا نقشہ بناتے ہوئے ہم جانتے ہیں۔
اس سب کو مرئی لبادوں میں ڈھالنا ضروری ہے۔
ہم لفظوں اور لکیروں اور نشانوں کو جانتے ہیں۔
جیسے اب یہ یقینی منزلیں ہوں۔۔
جیسے ان پہ ہمارے نام تک لکھے ہوں۔

مگر خاموشی۔۔ ان کہی ، اندیکھی نہیں ہے۔
بے زبانی کسی طور بے یقینی نہیں ہے۔
گزرے ہوئے لمحوں کو جاننے کی
لفظوں کی تہ میں دبے ان کہے لفظوں کی
منتظر ساعتوں کی، پرچھائیوں کی
موسموں کی، سمندروں کی، فاصلوں کی۔۔ اپنی ایک زباں ہے۔

نہ دیکھی ہوئی ،بے یقین منزلیں اس ان کہی کو جانتی ہیں۔
ہمارے ناموں سے بڑھ کر، ہمیں پہچانتی ہیں۔

_______________

 دریچوں  میں  جگنو