25 جولائی 2025

فریڈم فلوٹیلا حنظلہ

میڈلین کے بعد فریڈم فلوٹیلا نے حنظلہ جہاز کے نام سے غزہ کے حصار توڑنے کے لیے نئےمشن کا آغاز کیا۔ یہ سفر اٹلی سے ۱۳ جولائی کو شروع ہوا تھا اور 20 جولائی کو گالپولی مزید امداد اور رضاکار اکٹھے کرنے کے بعد جہاز غزہ کی جانب روانہ ہوا۔ فلوٹیلا ویب کے مطابق حنظلہ پر 21 بین الاقوامی کارکنان موجود ہیں جن میں 12 ممالک سے تعلق رکھنے والے وکیل، صحافی، میڈیکل اہلکار، سماجی کارکن، ممبران پارلیمنٹ اور بحری ماہرین شامل ہیں جن میں سات افراد کا تعلق امریکہ سے ہے۔ فلوٹیلا کے ویب پر اسے لائیو ٹریک کیا جاسکتاہے۔ 

تازہ مشن میں شامل افراد فلوٹیلا کی پچھلی کوششوں اور ان کے نتائج کی روشنی میں آنے والی دشواریوں اور ممکنہ خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور اس کے باوجود انہوں نے ظلم کے خلاف استقامت سے کھڑے ہونے کا تہیہ کیا ہے۔ سفر کے آغاز ہی سے مختلف مقامات پر روائیتی بیوروکریسی کی بندشوں کے تحت ان کی حوصلہ شکنی کی کوشش بھی کی گئی لیکن یہ ان یورپی بندرگاہوں میں مختلف پروگرامز کے ذریعے، وہ اپنے مقصد کی آگاہی پھیلاتے آگے بڑھتے رہے ہیں۔ 

گیلیپولی سے روانگی کی صبح ہی جہاز کو پہلی دو تخریبی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں پہلے تو اس کے پروپیلر میں رسی لپٹی ہوئی تھی جس کا از خود ایسے لپٹنا ممکن نہیں تھا۔ دوسرا جہاز کے استعمال کے پانی کی ڈیلیوری کی بجائے انہیں سلفیورک ایسڈ سے بھرا کنٹینر موصول ہوا جس سے کارکنوں کو کیمیائی زخم بھی آئے۔ لیکن یہ تمام ایکٹیوسٹ پر موجودہ ظلم کے سامنے خاموش رہنے کو انسانی جرم قرار دیتے ہیں۔ اور یہ فلوٹیلا واضح سیاسی بیانیہ ہے کہ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ خصوصا جبکہ بیشتر حکمران اور ذمہ دار ادارے اسرائیل کے خلاف بامعنی اقدامات سے اب بھی قاصر ہیں۔ 

جون میں اسرائیل نے بین الاقوامی پانیوں میں فلوٹیلا کے جہاز میڈلین پر قبضہ کر کے اس کے رضاکاروں کو جبری اغوا کر لیاتھا۔ میڈلین پر موجود گریٹا تھنبرگ سے جب غیرقانونی گرفتاری اور اسرائیل میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ مگر ایسی اور اس سے کہیں زیادہ مشکلات غزہ کے لوگ کئی دہائیوں سے روز برداشت کررہے ہیں۔ حنظلہ پر ہویدا اراف نے کہا ”کون ملک بچوں کو یوں سرد مہری سے جان بوجھ کر بھوک سے مارتا ہے اور کیسی دنیا ہے جو بیٹھی دیکھتی رہتی ہے۔“ جب میرے دس اور بارہ سالہ مجھ سے پوچھتے ہیں ماں کیا تم واپس بھی آؤگی۔ اور میں کہتی ہوں ”میں اپنی پوری کوشش کروں گی۔ لیکن مجھے یہ بھی کرنا ہے کیونکہ میں تم سے اتنی محبت کرتی ہوں کہ میں تمہیں ایسی دنیا نہیں دے سکتی جہاں یہ سب کچھ چل رہا ہے۔“ 

میڈیلین سے غیرقانونی طور پر گرفتار ہونے والے برزیلین ایکٹیوسٹ تھیاگو ایویلا نے جیل سے اپنی بیٹی کو لکھا: ”ڈئیر ٹریزا، مجھے افسوس ہے کہ میں پچھلے کچھ دنوں سے یہاں نہیں تھا، لیکن میں آپ جیسے دوسرے خوبصورت بچوں کے لیے کھانا لانے کی کوشش کر رہاتھا۔ بدقسمتی سے، وہ ان لوگوں کی وجہ سے بھوکے مر رہے ہیں جو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر انسان کو آزادی کا حق حاصل ہے۔ آپ کے والد ان لاکھوں لوگوں میں سے ایک ہیں جو ہماری نسل میں حقوق کی بدترین پامالی کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں" 

"میں واقعی میں جلد ہی گھر پہنچنے کی امید کرتا ہوں۔ میں ہر روز آپ اور آپ کی والدہ کے بارے میں سوچتا ہوں۔ اور اسی وجہ سے ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس کا استحصال، جبر اور تباہی سے بھرا ہونا مجھے قبول نہیں ہے۔“ حنظلہ پر سوار امریکی شہریوں نے ٹرمپ کے نام اوپن لیٹر میں پیغام دیاکہ اگر ایک غیر مسلح جہاز کو بےبی۔فارمولہ اور خوراک تک غزہ نہیں کے جانے دوگے تو امریکہ بھی اسرائیل کے جنگی جرائم میں حصہ دار ہے۔ 

یو این کے مطابق اب غزہ ڈیتھ فیز میں ہے۔ غزہ کے انسانوں کے معاملے میں عالمی ضمیر ( جو دراصل ہم سب کا انفرادی ضمیر ہے) ویسے نہیں جاگا جیسے روزمرہ میں عورتوں اور غیر ممالک میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے جاگا کرتا ہے۔ لیکن فلوٹیلا اور اس جیسی دوسری جرات آمیز کوششوں سے کچھ تحریک ضرور پیدا ہوتی ہے۔ اور کچھ بیدار لوگ کسی نہ کسی طور عملی مزاحمت کو آگے لے کر چلتے ہیں۔ 

حنظلہ فلوٹیلا کے رضاکاروں کی آخری اطلاع کے مطابق ان کے سر پر اسرائیلی ڈرون منڈلا رہے ہیں اور انہیں موصلاتی بلیک آؤٹ کا سامنا ہے لیکن انہوں نے بھوک ہڑتال کرے ہوئے اسرائیل کو وارننگ دی ہےکہ انہیں غیر قانونی طور پر بین الا قوامی پانیوں یا غزہ کی حدود سے روکا گیا تو یہ ہڑتال جاری رہے گی۔ دوسری طرف یہ ان کے غزہ میں بھوک کا شکار لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی علامت بھی ہے۔ جو کھانے کے ایک لقمے کے انتطار میں ے مر گئے ہیں یا انہیں امدادی ٹرکوں کے اطراف میں خوراک دینے کے بہانے اکھٹا کر کے اسرائیلی ٹینکوں اور سنائپرز سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اور ہم احتجاجاً اپنے اپنے فونوں سے اس کو ری۔ٹویٹ کر رہے ہیں۔




کوئی تبصرے نہیں: