یوں جیسے ہمارے وجود کی بنت کا
ایک سرا کہیں پھنس گیا تھا
جس کو اپنی اپنی جانب ہم نے بہت دیر کھینچا
ممکن یہ ایک ہی دھاگہ دو سروں سے بُنا ہوا ہو
سرا چھڑانے کی کشمکش میں
ہم دونوں مسلسل اُدھڑ رہے ہوں
ذاتی طور پر مجھے لفظ جاہل پسند ہے۔ جیسے یہ کسی کا پیار کا نام ہو۔ یا پھر اس میں ایک وعدہ چھپا ہو کہ اس اعتراف کے بعد سیکھنا ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔ ہمارے روزمرہ میں اس لفظ کا استعمال کسی کی لاعلمی کےتناظرمیں کیاجاتاہے۔ ہم ہروقت کسی نہ کسی شےسےلاعلم ہوسکتےہیں اورعلم کی مقدار اتنی زیاده ہے ہے کہ اچھے خاصے لوگ بھی خود کو علم کے بحر بیکراں کے کنارے محض چند سنگریزوں سے کھیلتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ہر وه جو سمجھتا ہے وه سب کچھ جانتا ہے وه کچھ نہیں جانتا۔ کیونکہ اپنی لاعلمی کی حد سے واقفیت ہی اصل میں ہمارے مزید جاننے اور سیکھنے کا آغاز ہوتا ہے۔ یعنی ہم سب تھوڑے بہت جاہل ہیں؟
چلو کہانی لکھیں۔
خواب اور خود فراموشی کے بیچ۔ نیند کی دہلیز پر
دیکھو۔ خیالوں کی روشنائی کیسے میرے ہاتھ دھندلا گئی ہے