01 جنوری 2025

قید


کچھ علاقے ایسے ہوتے ہیں جن میں آوازوں کی جگہ نہیں ہوتی۔ شائد وہ مقام اپنے تمام قصے وقت کے بہاؤ میں بہت پہلے کسی اور دن بیان کر چکے ہیں اور اب اظہار کی بے سود آزمائش سے گزر کر خالی ہاتھ بیٹھے ہیں۔ یا شائد انہوں نے اپنا قصہ ہر گزرتے مسافر سے اتنی بار دہرایا کہ وہ اپنی قدر کھو بیٹھا۔ کچھ نظارے اپنی ذات میں قید ہوتے ہیں۔ ذات کے قفس میں علاقے کا نیا پن نہیں ہوتا محض نگاہ کا تفاوت ہوتا ہے۔ روشنیاں اور اندھیرے ایک ہی نظارے کے چار کونوں کو نیا پیرھن اوڑھاتی رہتی ہیں۔ بظاہر وہ ایک نیا دن اور نیا روپ ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی جذب نہیں ہوتا۔ مسافر بھی اپنے خیال اور جذبے کی قید میں ہے۔ وہ ہر روز ایک سے نظاروں کو اپنے خیال کی جدت میں پرو کر اپنی قید کو آسان بناتا ہے، مگر دہراؤ رفتہ رفتہ ہر شے کو تھکا دیتا ہے۔ بے دم کر دیتا ہے۔ شائد قید میں بے دم ہو جانا ہی آزادی کا پہلا لمحہ ہے۔ ایک خالی سیپ کو دیکھو۔ اس میں سمندر کے طوفانوں کی آوازیں چھپی ہوئی ہیں۔ اس پر ایک بیش بہا موتی کے عارضی پڑاؤ کا انمٹ نشان ثبت ہے۔ اس کی ذات کا ہر نقش اس کے مصروف اور پرشور ماضی کی دستاویز ہے۔ مگر اب ٹہراؤ کا مقام ہے۔ وقت اس سیپ سے اور کیا لے سکتا ہے؟ سیپ کو اب کس شے کی چاہ ہے؟ شائد اس کو فطرت کی لکھی حد معلوم ہے۔ کیا نظارہ خاموشی سے اپنی حد میں ساکت اور بے پرواہ ،آزاد ہے یا یہ محض بے حسی ہے۔ اور جو اپنی شکل میں ٹہر گیا ہے ۔۔ نہ بن رہا ہے، نہ بگڑ رہا ہے۔ جو وقت کے گزرنے سے بے نیاز ہے کیا گزرتے لمحے رک رک کر اس کو دیکھتے ہیں؟ کیا فطرت کے دوسرے قیدیوں کو اس پر رشک آتا ہے؟


کوئی تبصرے نہیں: