04 دسمبر 2024

عمران سیریز۔ ناول ۲۰۲۴

لمبی  بیضوی میز کے گرد وہ سب افراد مکمل خاموشی سے بیٹھے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی پہلے بات شروع کرنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔ ایک مقتدرہ نے انہیں مختلف عوامی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے طور پر بلایا تھا۔ ان میں ٹی وی ہوسٹ اور سوشل میڈیا کے ماہرین بھی شامل تھے۔ رپورٹر اور پروفیسر بھی۔ سائنس اور اقتصادیات سے تعلق رکھنے والے نمایاں نام بھی۔ سیکرٹ سروس کے پرانے ممبر بھی عوامی حیثیت سے ان میں موجود تھے۔ خیال تھا کہ کچھ سمجھ بوجھ والے لوگ اکھٹے ہو کر بیٹھیں گے تو شائد پاکیشیا میں ہونے والے حالیہ واقعات کی روشنی میں عوامی بے چینی کی صورتحال سے پیدا ہونے والے چند اہم سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ 

پھر آہستہ آہستہ گفتگو شروع ہوئی اور جلد ہی لوگ ایک دوسرے کو بدلحاظی سے ٹوکتے، اپنے اپنے موقف کو پرجوش انداز میں پیش کرنے لگے۔ لیکن میٹنگ کے آغاز میں ہی سب کو اندازہ ہو گیا کہ بات اتنی آسانی سے سمجھ آنے والی نہیں۔ اصل میں ابھی انہیں پوری طرح مسئلہ کا سر پیر ہی سمجھ نہیں آیا تھا۔ اور حقیقت یہی تھی کہ مسئلہ اتنا پرانا اور پیچیدہ تھا کہ اس کا سر پیر نہیں تھا بس جسم ہی جسم تھا۔ حکومتی ادارے اور انکی پالیسیاں عملا عوام کی کسی بھی بہتری سے قاصر تھی۔ اور عوامی رائے عامہ کی روشنی میں میٹنگ کا دو نکاتی ایجنڈا بھی واضح تھا ۔ پہلا یہ کہ گولی کس نے چلائی۔ اور دوسرا گولی کیوں چلائی۔ 

بصری طور پر تو اندھیرے کی وجہ سے گولی چلانے والا صاف نظر نہیں آیا۔ لیکن عقلی طور پر "کیوں“ بھی واضح نہیں تھا کہ ایسی پھوہڑ حرکت سےکسی بھی ادارہ کو کیا مفید نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔۔ حالیہ اور پچھلے چند متشدد واقعات کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی ذمہ داری اب تک کسی ادارے نے باقائدہ قبول بھی نہیں کی تھی ۔ گمان غالب تھا کہ یہ کوئی ٹیکنیکل ایرر تھا اور کسی روٹین کی مشق میں گن کا رخ غلطی سے گھر کی طرف ہوگیا تھا۔ مگر اب اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ لوگ ذمہ داری لینے سے کترا رہے ہیں۔ جلد ہی دو گھنٹے گزر گئے۔ لیکن میٹنگ ابھی تک الزام تراشیوں اور کنسپیریسی تھیوریز کے دائرہ کار سے آگے نہیں نکلی تھی۔ 

ایک ماہر کا خیال تھا کہ گولی کسی تیسری پارٹی نے چلائی تھی جس کا مقصد حکومتی اداروں کو بدنام کرنا تھا۔ اور اس پر خاصا اتفاق موجود تھا۔ بلکہ ایک رپورٹر نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ مقامی چہرے صرف ماسک کے طور پر استعمال ہو رہے تھے ان کے پیچھے بدنام زمانہ تنظیم آئس۔ٹی کے پیشہ ور قاتل چھپے تھے، جس کا ایک ثبوت مقامی صحافی کے پاس سے کثیر مقدار میں آئس برآمد ہونا بھی تھا۔ جسے شائد تنظیم سگنیچر کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ایک اور اہم میڈیا شخصیت اس بات پر مصر تھی کہ اموات دراصل نظر کا دھوکہ ہیں اور ملک میں زندگی جوں کی توں رواں دواں ہے۔ جس پر کسی نے کچھ لوگوں نے غیر ملکی خبر رساں اداروں کے دیے گئے اعداد و شمار پیش کرنے کی جرات کی۔ جو اکثریت نے ملک دشمنی پر مبنی قرار دے کر رد کردیے۔ 

یہاں کسی کے ذکر کرنے پر پہلے تو وہ لوگ صبح دم المشہور شہید چوک پر منڈلاتے چیل کووں کے جھنڈ کی تشریح نہیں کرسکے۔ پھر یکایک انہیں سمجھ آئی کہ وہ جنات ہوسکتے ہیں جو عوام کی قربانی کی بو سونگھ کر نہیں بلکہ صدقے کے گوشت کی تلاش میں آئے تھے۔ بلیک زیرہ پروفیسر شکور کے میک اپ میں میز کی ایک سمت میں بیٹھا ہر ایک کو بولتے ہوئے سن رہا تھا۔ اس نے تیسری دفعہ سوال اٹھانے کی کوشش کی کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے، کیونکہ عوام اور حکومت کے درمیان زیرو سم گیم جاری رکھنے سے بہرحال پاکیشیا کے دشمنوں کے ہاتھ انہیں نقصان پہنچانے کا سنہرا موقع آجاتا۔ وہ حالات کو شدید رنگ دے کر عالمی برادری میں ان کو مزید تنہا کرنے کی کوشش بھی کر سکتے تھے۔ 

مگر ان کے لیے آگے کے لائحہ عمل کا کوئی سیدھا جواب ڈھونڈنا آسان نہیں تھا۔ تمام شرکا کو اندازہ تھا کہ جہاں عوام حکومتی کارکردگی اور ملکی انتظامات سے تنگ تھے وہیں حکومت عوام کی حرکات سے تنگ تھی۔ ایسی صورتحال میں جو کردار ادا کرنے کی ان سے توقع کی جا رہی تھی وہ مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ایک معزر شکل صحافی نے تجویز دی کہ وہ پرچیاں ڈال لیں کہ کون لوگ حکومت کی طرف داری کریں گے اور کون عوام کی طرف سے بولیں گے۔ یہ بہرحال آگے کنواں پیچھے کھائی کی سی بات تھی لیکن طاقت کے توازن کی وجہ سے بیشتر لوگ کنوئیں میں کودنے سے گریزاں تھے۔ 

کچھ لوگ عوام کی دل دہی کے لیے نئے ملی نغمے کے کلپ وائرل کرنے کے حق میں تھے۔ ایک سینئیر نے تجویز دی کہ حقیقی اموات سے توجہ ہٹانے کے لیے کہ وہ مقبول عوامی ڈرامے میں پسندیدہ کردار کو مروا سکتے ہیں۔ خودکشی ہو تو اور بہتر ہے۔ مگر معترضین کا خیال تھا یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ مقبول ڈرامہ نگار کے لیے عوام کو ایسا شدیر ذہنی جھٹکا دینا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اور پھر ڈرامہ چینل بھی عوام کی سوشل میڈیا تنقید سے کتراتے ہیں۔ مگر سینئیر کا خیال تھا کہ وسیع تر عوامی مفاد کی خاطر وہ ہمیشہ کی طرح بالآخر مان جائیں گے۔ بلیک زیرو کو یہ سب سن کر شدید مایوسی ہو رہی تھی۔ ویاں تو کہ سیکرٹ سروس کے شریک ممبر بھی “ہم پاکیشیا کو پیش ہر خطرے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہیں گے” والی جذباتی بڑھکوں سے آگے کچھ سوچنے سے قاصر تھے۔ 

عمران پچھلے کچھ عرصے سے ہر طرح کے رابطے منقطع کرکے منظر سے غائب تھا۔ عموما ایسے مواقع پر وہ پیش نظر حالات میں کچھ نہ کچھ حکمت عملی طے کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتا تھا لیکن اس وقت یہ ساری گفتگو سن کر اسے لگ رہا تھا کہ اس کا آئی کیو فی سیکنڈ کے لحاظ سے ایریز ہو رہا ہے۔ اسے عمران کی راہنمائی کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن ساتھ ہی اس کی خواہش تھی کہ وہ روپوش ہی رہے جس کی وجہ اس کی نظر سے اتفاقا گزرنے والی وہ ٹویٹس تھیں جن میں اسے منظر سے غائب کرنے کی طرف مبہم اشارے دیے گئے تھے۔ وہ اس بارے میں مزید معلومات کا منتظر تھا اور حالات واضح ہونےسے پہلے وہ جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ 

اچانک وہ اپنے خیالات سے چونکا۔ میز پر موجود لوگوں میں یکایک بے چینی پیدا ہوئی۔ ایک ممبر نے دیوار گیر کھڑکی سے باہر اشارہ کیا جہاں سڑک کے کنارے دو ویگو آگے پیچھے پارک ہو رہی تھی۔ معزز شکل نے ساتھ والے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے تیز رفتاری سے بیرے کو کچھ اشارہ کیا۔ چند سیکنڈ میں آنکھوں آنکھوں وہ اگلے سکرپٹ پر متفق ہوچکے تھے۔ جب تک بیرا سالگرہ مبارک لکھا بڑا سا کیک اٹھائے میز تک آیا وہ سب سینئیر پروفیسر کے لیے ہیپی برتھ ڈے گانے کے لیے تیار تھے۔ دارلحکومت سے کچھ فاصلے پر کچی آبادی کے ایک غیر آباد مکان کے نیچے عمران اپنی خفیہ لبارٹری میں وسیع سکرین پر خفیہ کیمرے سے ممبران کی کارکردگی دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا شائد وہ سچ میں نہیں تو جھوٹ موٹ ہی مر جائے، شائد اسی شاک ٹریٹمنٹ سے ان لوگوں کا دماغ کچھ کام کرنا شروع کردے۔



کوئی تبصرے نہیں: