سوال ہے کہ ”اگر ہم خود میں اعلی اخلاقی محاسن کو پاچکے ہیں تو ہمیں طے شدہ اصولوں کے ایک مجلّے کی کیا ضرورت ہے جو کوئی اخلاقی ضابطہ ہم پر لاگو کرے۔ ہماری طرح دوسرے تمام بھی خود فیصلہ کرکے اچھے انسان بن سکتے ہیں (جیسے اگناسٹک)۔“ سوال کو مذہب سے الگ کرکے، محض اخلاقی بنیاد پر زیادہ آسان شکل میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں ہم نے بڑی سادگی سے اپنے ذاتی معیار کو اچھائی کے حتمی معیار متعین کرلیا ہے۔ ہم اس ذاتی معیار کا اکتساب اپنی تعلیم و تربیت، خاندان اور گردونواح سے کرتے ہیں۔ اور سمجھنے لگتے ہیں کہ میرا اور آپ کا ایک اچھے انسان۔ (اچھی اولاد، اچھے طالبعلم، اچھے دوست وغیرہ) کا تصور بالکل ایک سا ہے ۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو اصول میں نے ایک اچھے انسان کے طور پر خود پر لاگو کیے ہیں وہی آپ بھی خود پر لاگو کر لیں۔ جو حقوق میں نے اپنے لیے پسند کیے ہیں آپ بھی انہی سے اتفاق کریں۔ یہ ذاتی اخلاقیات کے فکری مغالطہ کی کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔ یعنی ہم کسی مشترکہ اخلاقی ضابطے کو اضافی سمجھ کر ہدایت کا مآخذ (اپنے) دماغ کو قرار دیتے ہیں اور پھر اس ہدایت کو مشترکہ قدر سمجھ لیتے ہیں۔
30 اکتوبر 2024
08 اکتوبر 2024
افغانی بلی اور باقی سب
اینڈی: لیکن اگر میں خود ہی یہ نہیں چاہتی۔ مطلب اگر میں ایسے نہیں جینا چاہتی جیسے تم جیتی ہو
تمسخر مت کرو اینڈریا۔ ہر ایک یہی چاہتا ہے۔ ہر ایک ”ہم“ بننا چاہتا ہے۔
مرانڈا پرسٹلی۔ دا ڈیول ویرز پراڈا
اقوام متحدہ کی سائڈ لائن پر میریل اسٹریپ نے اپنی تقریر سے فلسطین میں ہوتے انسانی حقوق کی پامالی کی طرف دنیا کی نظر مبذول کرانے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ قریبا تمام بڑے خبر رساں اداروں نے اس کاوش کو سراہا۔ اس تقریر میں اخلاقی قوانین کے بدلتے معیار پر سوال اٹھایا گیا۔ یعنی کیسے آج ایک بلی اپنے چہرے پر سورج کو محسوس کر سکتی ہے اور ایک گلہری کا پیچھا کر سکتی ہے۔ ایک گلہری جو پارک جا پاتی ہے اور ایک پرندہ جو گا سکتا ہے۔ لیکن ایک فلسطینی بچہ ۔۔ اوہ نہیں۔ فلسطینی بچے نہیں افغانی بچیاں۔ اور عورتیں۔