ہوتا ہےشب و روز تماشا میرے آگے
باندھیں خود کو تختوں سے ۔سانس روکیں
کوزوں میں پھر سے ڈوب جائیں
یا جل بجھیں کچھ راکھ سے۔ بہ جائیں سمندر میں
ایک تبصرہ شائع کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں