01 جنوری 2024

یپی نیو ائیر


عموما لوگ نئے سال کا آغاز وغیرہ دعاؤں، نیک تمناؤں سے کرتے ہیں۔ اچھی نیت کسی بھی کام کے آغاز کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں لیکن کچھ لوگ اب ہیپی نیو ائیر کہتے ہوئے ڈبل مائینڈڈ ہوجاتے ہیں ایک طرف اس مبارکباد کی کوئی منطقی توجیح انہیں سمجھ نہیں آتی۔ پھر دوسری طرف انہیں خلش ہوتی ہے کہ ہجری سال کیا کہے گا ۔ جس کے آغاز کا علم تو نو محرم کو ہی ہوتا ہے اوریہ سال کونسا چل رہا ہے وہ تو چیک کرکے بھی پانچ سات منٹ تک ہی یاد رہتا ہے۔ مگر فکر مت کریں اس کلچرل لمبو میں آپ تنہا نہیں ہیں ۔ 

ویسے باقی لوگوں کے لیے بھی نیک جذبات کا عمومی لینڈ سکیپ اس دفعہ سکوت زدہ ہی تھا۔ بہت سے لوگوں نے سسکتی انسانیت سے یکجہتی ظاہر کرتے ہوئے مختلف قسم کی تقاریب سے احتراض و بائیکاٹ بھی کیا کیونکہ بہرطور سال ۲۰۲۳ میں انسان نے تمام تر اچھی تمناؤں کے باوجود نے سورج کے گرد ایک ناکام اور نامراد چکر پورا کیا ہے۔ صرف سورج ہی کی بات کریں پچھلے جولائی میں ایک لاکھ سال کا گرم ترین درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ (ناسا۔ جیس ٹیمپ ۔وی فور) GISTEMP v4 

کہنے والوں کے بقول یہاں سے گلوبل وارمنگ کے اختتام سے گلوبل بوائیلنگ کا دور شروع ہوتا ہے۔ جس کی ایک نشانی جنگلی آگ کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور سیلابوں کی تباہ کاریاں ہیں۔ جس سے مجھے ڈے آفٹر ٹومارو کا یواین کانفرنس کا سین یاد آگیا۔ لیکن سائینسدان حقیقتا مایوس ہیں کہ یو این کے کوپ۲۸ سمٹ میں ان کی تمام تر کوشش کے باوجود کسی خاطر خواہ منصوبہ بندی کی طرف پیش رفت ممکن نہیں ہوسکی۔ 

ایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے آنے والے سیلاب اور زلزلے انسانی جانوں کے زیاں کا باعث بن رہے ہیں۔ تو دوسری طرف سیاسی نتازعات ان سے بھی کہیں زیادہ مہلک ہیں۔ پچاس سے زیادہ علاقوں میں جاری تنازعات اور جنگ و جدل نے بری طرح لوگوں کی جان مال معاشرت و ماحولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یو این کے ایک ڈیٹا کے مطابق ۲۰۲۲ تک دس کڑوڑ کے قریب لوگ ان مسائل کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ خصوصا بچوں کو ان بحرانوں میں دور رس نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی زندگیاں صحت، تعلیم اور پرامید مستقبل اس کی زد میں آتے ہیں۔ 

ایسے میں لوگوں کی اعانت کے لیے آئے دن مدد کی اپیلیں اور فنٖٖڈ اکھٹے کرنے کی مہمات جاری کی جاتی ہیں۔ عطیہ دہندگان کی مدد بہرحال اہم ہے کیونکہ کرائسس کی صورتحال میں وسائل ہی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ریلیف ویب ( اکتوبر ۲۰۲۲ّ) مطابق یہ تین سو چار ملین ضرورت مند لوگ اور پینتالیس اپیلیں ریگارڈ کی گئیں۔ ان کی ضرورت کا تخمینہ قریبا پچپن بلین ڈالر تھا۔ اکتوبر کے آخر تک عطیہ دہندگان کی مدد سے اٹھارہ بلین ڈالر اکٹھے ہوئے۔ اور اس وقت دنیا بھر میں نجی دولت چار سو چون ٹریلین ڈالر کے قریب ہے جس میں سے دوسو ٹریلین کے مالک دنیا کی آبادی کے ایک فیصد پر مشتمل ہیں یعنی قریبا ستر ملین۔ یہاں ایک فیصد آبادی ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے حاصل ستر بلین بنتا ہے۔ لیکن یہ اتنے سارے زیرو ہیں تو میری طرف سے غلطی کا امکان بھی ہے۔ 

یو این کے انتونیو گوٹیرس نے دنیا کو نئے سال میں خوشی اور امن کی دعا دیتے ہوئے کہا۔ “۲۰۲۳ بہت زیادہ مصائب، تشدد اور موسمیاتی افراتفری کا سال رہا ہے۔انسانیت تکلیف میں ہے۔ ہمارا سیارہ خطرے میں ہے ۔بڑھتی ہوئی غربت اور بھوک سے لوگ پس رہے ہیں۔” وغیرہ وغیرہ ۔۔ اور “ اقوام متحدہ دنیا میں امن، پائیدار ترقی اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا” یو این اور دعائیں اور پیغامات اچھی چیزیں ہوسکتی تھیں۔ 

انہی نعروں۔ دعاؤں اور اپیلوں کے دوران اکتیس دسمبر اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت اور بربریت کا چھیاسیواں دن تھا۔فلسطین کے اعداد و شمار کے مطابق صرف غزہ میں بائیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔جن میں بچوں کو خصوصا ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ جبکہ ابھی ہزاروں لاشیں تلے دبی ہوئی ہیں۔ جبکہ خبر کے مطابق اسرائیل مصر کے ساتھ غزہ کی پٹی کی سرحدی گزر گاہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے تک جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ 

روئٹرز ہی کے مطابق اسرائیلی دائیں بازو کے اتحاد کے ایک وزیر نے اکتیس دسمبر کو غزہ کے فلسطینی باشندوں سے غزہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا غزہ کی پٹی میں ہجرت کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بیس لاکھ کی بجائے لاکھ دو لاکھ عرب رہ جائیں تو بحث ہی مختلف ہوجائے گی۔ اسے فلسطینیوں کے انخلا کے بعد صحرا میں پھول کھلانے کی تمنا ہے۔ یاد رہے کہ یہ “صحرا” کسی بھی بڑے امریکی شہر سے زیادہ گنجان آباد ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق یہ چودہ ہزار افراد پر مربع میل ہے۔ 

بموں کو از خود تو شہری آبادی اورحماس میں فرق کرنا نہیں آتا اس لیے ممکن بھی ہے کچھ اور روز میں یہ گنجان آباد علاقہ پہلے ملبے کا ڈھیر پھر ویرانہ اور پھر صحرا بن جائے۔ ٹھیکیدار اور پٹواری تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ اس دوران جنگ کی تباہ کاریوں سے ماحول مزید ابتر ہو جائے گا۔ سائینسدان نئے منصوبے بنانے میں مصروف ہوجائیں گے۔ اس اثنا میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو امداد دینے کے لیے مزید بے گھر افراد مل جائیں گے۔ عورتوں اور بچوں کی بحالی کے پروگرام ترتیب دیے جارہے ہونگے۔ ہم سب مل کر اعتماد کی بحالی اور امید کی فراہمی کے لیے کام کرتے ہوئے ۲۰۲۴ کو ایک مثالی سال بنانے کے لیے کوشاں رہیں گے۔

یہاں مجھے ترک ایم پی حسن بٹمیز کا آخری خطاب یاد آ رہا ہے: “اگر ہم خاموش بھی رہے تو تاریخ خاموش نہیں رہے گی اگر تاریخ بھی خاموش رہی تو بھی سچ خاموش نہیں رہے گا ۔ اگر تم اپنے ضمیر کے عذاب سے بچ گئے تو تاریخ کے عذاب سے نہیں بچو گے۔اور اگر تاریخ کے عذاب سے بچ نکلے تو اللہ کے غضب سے نہیں بچو گے۔(سامي العريان ٹویٹر پوسٹ)۔” 


کوئی تبصرے نہیں: