ایک مفكر درحقیقت فلسفہ اور زبان دونوں کے ذریعے خیال کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا ہےزبان ہمارے لیے ان ایوانوں کی کنجیاں مہیا کرتی ہے جو ابھی ہم پر آشکار نہیں ہوئے۔ اور فلسفی خیال کے ان مقامات پر رکنے کے لیے مکان تعمیر کرتے ہیں جہاں ابھی آباد کارہی نہیں ہوئی۔
ایسے لگتا ہے کہ غالب کے شاعرانہ فلسفے کی اپروچ افقی ہے اور اقبال کی افقی بھی ہے اور عمودي بھی۔ غالب کائینات کو ایک انسان ،ایک فرد واحد کے نظریاتی پوائینٹ آف ریفرینس سے پڑھتا ہے۔ وہ ایک اکائی ہے جس کی توجہ خالق کے ساتھ ایک انفرادی تعلق کی تخلیق ترویج و تشہیر پر مرکوز ہے۔باقی لوگ وہاں ہیں لیکن وہ سب اپنی اپنی جگہ مفرد ہیں۔ اقبال انسان کو کائینات کے کے تناظر میں پڑھتا ہے۔ اس لیے ربط ملت اقبال کے خیال کی فلسفیانہ تخلیق کے لیے ضروری ہے۔
ایک لحاظ سے غالب کے قاری کو فارسی مکتبہ فکر کے گہرے تصوف کی خیال انگیزیاں ملتی ہیں اور اقبال کے قاری کو سخت کوش عمل کی رزم گاہ کے ذریعے حقیقت دستیاب ہوتی ہے۔ یہ انسان کے اپنے میلان کی بات ہے کہ وہ حقیقت کو کس روپ میں پہچانتا ہے اور اس پہچان سے اپنے لیے زندگی کے کن مسائل کا حل تلاش کرتا ہے۔
اقبال کے خطبات سے ایک اقتباس :
ذاتی طور پر مجھے لگتا ہے غالب انسانی قلب کی جس انفرادی کیفیت کا بیان کر تا ہے وہ شائد اکسویں صدی کے خود آاگاہ و خود شناسا قاری کو زیادہ مانوس لگے ۔لیکن اقبال کا ذہن جس ہمہ گیری کی تمنائی ہے وہ عالمی گاوؐں کی بہبود کے لیے زیادہ ضروری اور ریلوینٹ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں