24 جنوری 2022

شاعری ۔ آل احمد سرور

آل احمد سرور۔ ریختہ ویب
پار سال میں حسب معمول اپنی خیالی رزم گاہ میں نہ سمجھ آنے والے آسان سوال پر غور کر رہی تھی کہ حقیقت کے ادراک کے سفر میں بصیرت پہلا پڑاؤ ہے یا مسرت؟ یا دونوں بیک وقت اس ادراک کا حصہ ہیں؟ اس دوران گوگل سے سوال جواب کرتے کرتے میں آل احمد سرور کی اس کتاب تک پہنچی تھی۔ عنوان دیکھ کر مجھے جو مفہوم سمجھ آیا تھا کتاب اس بارے میں نہیں ہے۔ کتاب اصل میں اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ ہے۔

۱۹۷۳ میں لکھے جانے کے لحاظ سے یہ تنقید بری نہیں ہے۔ جو لوگ اردو شاعری کے مختصر تنقیدی جائزے میں انٹرسٹڈ ہیں ان کے لیے یہ کتاب ریختہ  اور کتاب گھر پر موجود ہے۔ آل احمد سرور کی غالب اور اقبال تنقید پر علیحدہ تصانیف بھی موجود ہیں۔ جس میں ان کے فلسفے اور اسلوب کا زیادہ گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کو شاعروں کے تقابلی جائزہ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ذاتی طور پر میں ان قارئین میں شامل نہیں ہوں لیکن ایک نکتہ میرے دماغ کچھ شکل پا رہا ہے کہ شائد غالب کی اپروچ افقی ہے اور اقبال کی افقی بھی ہے اور عمودی بھی۔

اپڈیٹ: اس پوسٹ کو یہاں پڑھیے


 میں نے پوری کتاب کا مطالعہ نہیں کیا۔ کیونکہ میری تلاش کچھ اور تھی۔ کتاب کے پیش لفظ سے ایک اقتباس: 
______

شاعری مسّرت سے شروع ہوتی ہے اور بصیرت پر ختم ہوتی ہے۔

Poetry begins in delight and ends in wisdom :Robert Frost

اس مجموعے کا نام مشہور امیریکن شاعر رابرٹ فراسٹ کے ایک قول سے لیا گیا ہے جو شاعری سے متعلق ہے۔ بات وہی پرانی لطف اور درس والی ہے مگر فراسٹ مسرت سے آغاز کرکے اور بصیرت پر ختم کرکے میرے نزدیک شاعری ہے اثر کو زیادہ خوبی سے واضح کرتا ہے۔ میں نے وزڈم کا ترجمہ بصیرت کیا ہے کیونکہ عقل مندی، سوجھ بوجھ دانش مندی سے فراسٹ کا مفہوم ادا نہیں ہوتا۔ شاعری علم عطا نہیں کرتی، بصیرت دیتی ہے ۔ جو نالج سے مختلف ہے لیکن جو کسی نالچ سے کم نہیں ۔

بقول نارتھروپ فرائے شاعری باطنی حقیقت کی کمی رومانس سے تراوش کر سکتی ہے کیونکہ یہ خود رومانی حقیقت کی زبان ہے۔ اس نکتے کو عام طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک طرف لوگ قدیم اور جدید کی بحث میں الجھ جاتے ہیں دوسری طرف مقصدی شاعری اور غیر مقصدی شاعری کی۔ اگر شاعری کی مخصوص بصیرت کو تسلیم کر لیا جائے اور یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نہ کسی اور علم سے کمتر ہے نہ برتر، مگر اس کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی ۔اور باطنی حقیقت تبدیل بھی ہوگی اور اس تبدیلی کے باوجود انسان کی روح کے بعض تاروں کو ہمیشہ چھیڑتی رہے گی تو(۔۔۔ )شاعر سے ہمارا مطالبہ صرف یہ ہوگا کہ وہ اپنی نظر سے وفادار ہو، اب اسکی نظر ہمیں آں سوئے افلاک لے جائے یا دھرتی کے کرب اور اس دور کے انتشار کی طرف، اسے اس کی پوری آزادی ہے۔

 (۔۔۔ ) کہا جاتا ہے کہ کسی آدمی یا ادارے یا قوم کو پہچاننے کے لیے پہلے اس سے محبت ضروری ہے۔ یہی محبت عرفان کی منزل تک لے جائے گی اور محبوب کی خوبیوں اور خامیوں دونوں سے آگاہ کرے گی۔ یہ زندگی کو اس کے ہر رنگ میں دیکھے گی اور دکھائے گی۔ اور اپنی تنظیم اور خیال انگیزی کی وجہ سے زندگی کی نئی تنظیم کی طرف مائل کرے گی ، اگر ہم اپنے پورے شعری سرمائے پر غور سے نظر ڈالیں تو ہمیں اس کےرنگا رنگ حسن اس کی گہرائی اور گیرائی اور اس کے بدلتے رہنے ،اور اس بدلتے رہنے کے باوجود اپنے منصب سے وفادار رہنے کا احساس ہو جائے گا ۔

_____________

 مسّرت سے بصیرت تک

 آل احمد سرور
اکتوبر ۱۹۷۳

کوئی تبصرے نہیں: