16 مئی 2016

فیض


درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دُور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دُھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہِ تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ قافلہِ شوق کی تیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا

ہم نے چاہا بھی مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا



--
ہارٹ اٹیک
فیض احمد فیض

کوئی تبصرے نہیں: